Friday, May 3, 2024
Home Blog Page 4

قواعد و ضوابط امتحانات وفاق المدارس

قواعد و ضوابط امتحانات وفاق المدارس

Qawaid wa Zawabit e Imtihanat Wifaq ul Madaris

Consensus and communication between the scholars, uniformity in the education system and uniformity in the examinations and curriculum have a key position in the goals and objectives of the federated schools. More than 600,000 male and female students from Madrasahs and Universities across the country participate in these exams every year. Administratively, it is a difficult task that from Khyber to Karachi and from Quetta to Gilgit, the students of all madrassas and universities gather on a fixed date and at a fixed time in the designated centers and give the exam in such a way that the question papers are completed at the same time. It reaches the hands of the students of the country. The invigilators and assistant invigilators in the federal school examinations are strangers and honest scholars. From which no illegitimate benefits can be imagined. Students solve the paper only with their own personal ability. As soon as the scheduled time of the examination is over, the invigilators of each center seal the bundles of all the papers and register them with the federal office at the same time. Despite all its resources, the government, due to administrative difficulties, sets up separate education boards in each division, which conduct examinations for one class at a time. But Alhamdulillah, the Federation of Schools at the national level conducts the examination of all grades at the same time and announces the results within a month. There is no possibility of any student or madrassa being discounted in this safe and reliable system of examinations of Federated Schools. Therefore, along with the famous and well-known universities, the students of unknown and unknown madrassas also continue to get a distinguished position.
Alhamdulillah, contemporary institutions are also jealous of the federal examination system. This wonderful system is due to the strict implementation of the rules and regulations by the examiners.
Alhamdulillah Akabar Federation has laid down the rules and regulations for the examination system from the beginning, and from time to time the Board of Directors and the Examination Committee have been revising and modifying them. Thanks to the implementation of these rules, the excellent examination system was established, which is the reason why contemporary institutions are also jealous of the federal examination system.
Maulana Abdul Majeed and his assistant Muhammad Saifullah Naveed have reorganized the examination rules and regulations of the grade books and the authorities have established a procedure for payment of examination expenses to facilitate the examination. The relevant forms have also been included, with this effort, the institution’s reputation will increase with transparency in the examination and payment system.
Federal regulators and all officials are requested to train the supervisory staff in the light of these rules and regulations and ensure compliance with them and ensure payment of expenses and use the given forms for payment of expenses.
The rules and regulations related to school examinations have been laid down and the procedure for payment of examination expenses has been laid down. Also, relevant forms have also been included. Officials should ensure compliance with the rules and regulations and train the supervisory staff according to the same rules and regulations.

Read Online

Download (1MB)

Link 1      Link 2

دورہ حدیث نصاب اردو شروحات

اصلاحی مضامین و مقالات

اصلاحی مضامین و مقالات

مضامین و مقالات

عقیدہ ختم نبوت اور ہماری ذمہ داری

بیماری اور مزاج پرسی ؛ آداب و احکام جنازے اور تدفین میں شرکت ؛ آداب و احکام

سلام اور اسلام

مسلمان کے ساتھ خیر خواہی

دعوت قبول کرنا مسلمان کا حق چھینک اور جماہی کے آداب

استنجے کے آداب اور احکام لباس کے آداب اور اس کے شرعی حدود

جمعہ کے دن کی سنتیں

حج ایک عاشقانہ عبادت

امانت کی اہمیت اور حفاظت

قربانی اور احکام ذی الحجہ

صلوۃ الحاجت کی فضیلت، اہمیت اور ضرورت

قربانی اور عقل انسانی

قربانی پر کیے جانے والے شبہات اور ان کے جوابات

تجدد پسند اور روشن خیال حضرات کی خام خیالیاں قربانی سے متعلق غیر مقلدین کے شبہات

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے کثرت تصانیف کے ظاہری اسباب

مؤلف

مفتی عبد اللطيف قاسمی

جامعة غيث الهدى بنتكور

د ۱۷ ۲۴۷۵۵۴

كُنْخَانَهُ نِعَمَيَّة ديوبند

Islahi Mazameen wa Maqalat

By Mufti Abdul Latif Qasmi

Read Online

Download (2MB)

Link 1       Link 2

عقیدہ ختم نبوت اور ہماری ذمہ داری۔ بیماری اور مزاج پرسی آداب و احکام۔ جنازے اور تدفین میں شرکت آداب و احکام۔ سلام اور اسلام۔ مسلمان کے ساتھ خیر خواہی۔ دعوت قبول کرنا مسلمان کا حق۔ چھینک اور جماہی کے آداب۔ استنجے کے آداب اور احکام۔ جمعہ کے دن کی سنتیں۔ حج ایک عاشقانہ عبادت۔ صلوٰۃ الحاجت کی فضیلت، اہمیت اور ضرورت۔ لباس کے آداب اور اس کے شرعی حدود۔ امانت کی اہمیت اور حفاظت۔ قربانی اور احکام ذی الحجہ۔ قربانی اور عقل انسانی۔ قربانی پر کیے جانے والے شبہات اور ان کے جوابات۔ تجدد پسند اور روشن خیال حضرات کی خام خیالیاں۔ قربانی سے متعلق غیر مقلدین کے شبہات۔  حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے کثرت تصانیف کے ظاہری اسباب۔

از مفتی عبد اللطیف قاسمی

طب یونانی کی پوری لائبریری

تقلید کے شکار

تقلید کے شکار

حامدا ومصليا

حرفے چند

یہ کوئی مستقل کتاب نہیں، بلکہ کتاب چہ بھی نہیں محض ایک مختصر سا مضمون ہے، جو میرے مشفق و کرم فرما جناب حافظ ادریس صاحب قریشی ندوی کے حکم پر تحریر کیا گیا ، انھوں نے ایک ویڈیو کلپ بھیجا، جو اہل حدیث کے تعارف پر مبنی ہے، حافظ صاحب نے مجھ سے اس کا جواب آڈیو فورمیٹ میں بنانے کو کہا تھا، میں نے اس کا یہ جواب آڈیو میں ہی بھیج دیا تھا، پھر محسوس ہوا کہ اس مضمون کو کتا بچہ کی شکل میں محفوظ کرنے سے اس کا فائدہ بھی دو چند ہوگا اور انشاء اللہ یہ دیر پا بھی رہے گا ، اسی احساس کے پیش نظر اس کا یہ ایڈیشن شائع کر دیا۔ اہل حدیث کے تعارف پر مبنی یہ ویڈیوکرمی جناب شیخ عبدالحنان صاحب دامت برکاتہم سامرودی کا ہے جو کراچی کے بروج انسٹی ٹیوٹ میں تفسیر وحدیث کے استاذ ہیں، مجھے بروج کی لمی ویب سائٹ پر تو یہ ویڈیو نہیں ملی، البتہ بروج انسٹی ٹیوٹ کے یو ٹیوب چینل پر یہ ویڈیو سوال وجواب کے عنوان سے تقریباً دس منٹ کی موجود ہے، پونے سات منٹ میں انھوں نے اہل حدیث کا تعارف بیان کیا ہے، اس مضمون اسی پر چند گذارشات پیش کی گئی ہیں۔ آڈیو والی گفتگو میں چند ترامیم واضافات بھی کئے گئے ہیں لیکن ان سے نفس مضمون پر کوئی بڑا فرق نہیں پڑا، کتاب کی سیٹنگ، یا کسی جملے کی وضاحت کیلئے ان کو بڑھایا گیا ہے کتاب کی زبان و بیان سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کا مقصد شیخ حنان صاحب دامت برکاتہم پر تنقید برائے تنقید نہیں، بلکہ ایک اصولی گفتگو ہے، میں خود بین المسالک وسعت ذہنی کا حمایتی ہوں ، مسلک کے سلسلے میں تشدد یا جمود کو ، حدیث کے مقابلے میں تقلید کے لزوم کو غلط نا جائز و حرام سمجھتا ہوں، دین کا اصل سرچشمہ قرآن وسنت کو قرار دیتا ہوں، فقہ کو اسی تصریح کہتا ہوں ، نہ کہ دین حنیف کی کوئی الگ شق ، فقہ اور فقیہوں کے تمام دعوؤں اور موقفات کو اسی ترازو میں تو لنا لازم سمجھتا ہوں، اسی معیار پر پرکھنے کو واجب جانتا ہوں ، اور جہاں وہ اس معیار سے الگ ہوتے ہوں وہاں خود بھی ان سے علیدگی اختیار کرنا فرض سمجھتا ہوں، لیکن اس سلسلے میں تقلید کو قطع راہ نہیں دیتا، یعنی میں کسی دوسرے کے کہہ دینے بھر سے اپنے موقف سے نہیں ہٹتا بلکہ خودا حادیث کا تتبع کرتا ہوں۔

ہاں میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ یہ کام ہر شخص کا نہیں ہے کہ وہ مکمل علم حدیث حاصل کر کے خود مجتہد بنے ، یہ امر ممکن بھی نہیں، ضروری بھی نہیں اور مفید تو قطعا نہیں ، خود نبی کریم صلای سی ایلم کے زمانہ میں صحابہ کرام ایک دوسرے سے مسائل معلوم کیا کرتے تھے، اور صحابہ کرام کی جماعت میں بھی ہر شخص نہ تو فقیہ تھا، نہ مفسر اور نہ محدث ، ان کے الگ الگ میدان تھے، کوئی جنگی میدان کا شہسوار تھا، کوئی امن و صلح میں فنکار، کوئی تجارت کے میدان کا ماہر تھا، کوئی زہد وریاضت میں طاق ، کوئی وعظ و تقریر میں جادو جگاتا تھا، توکوئی شعر و شاعری میں مشاق، کوئی علمی میدان میں بے نظیر تھا، تو کوئی سیاسی تدابیر میں بے مثال، پھر علمی میدان والوں کی بھی الگ الگ فیکلٹیاں تھیں، بعض علم تفسیر میں ممتاز تھے، بعض علم فقہ میں ، بعض حفظ حدیث میں نرالے تھے بعض علم قرآت میں یکتا ، تو کوئی قضا میں لا جواب تھا، ان تمام لوگوں کا مرجع و ماوی ایک ہی تھا، ذات رسول صل الی ہیں ، یہ سب اسی ایک سرچشمہ سے نکلنے والی دھار میں تھیں، سب ایک دوسرے سے استفادہ کرتے تھے ، ایک دوسرے کو مانتے تھے سراہتے تھے۔

معلوم ہوا کہ جس طرح قرآنی علوم زمانہ رسالت سے چلے آرہے ہیں اسی طرح ایک دوسرے سے استفادہ کا رواج و طریقہ بھی اسی وقت سے چلا آرہا ہے، اور اسی کا نام تقلید ہے، اگر چہ یہ نام اس وقت نہیں تھا، نہ اس وقت چار امام تھے، نہ چار حدیث لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ اس وقت یہ عمل بھی موجود نہ ہو، نام کے ساتھ موسوم ہونا، ترتیب کے ساتھ مرتب ہونا، اور تدوین کے لحاظ سے مدون ہونا، یہ سب بعد میں ہوا، بعد میں ہی حنفی بنے ، شافعی بنے ، اور بعد میں ہی وہابی بھی پیدا ہوئے ، نام اور اپنے مدون اصولوں کے ساتھ ان کے یہ الگ الگ گروہ یقیناً بعد میں بنے ، لیکن تمام کی اصل وہی ہے، سر چشمہ وہی ہے، البتہ جو اس سلسلے میں تشدد کرے، دوسروں کی تنقیص کرے، ان کی تحقیر کرے، دوسرے کے مسلک کو سیدھا سیدھا بے دینی کہے، حدیث کے خلاف سنت سے دور قرار دے، جیسا کہ آج کل کے اکثر مجدی علماء و عوام کر رہے ہیں، تو وہ یقینا راہ صواب سے دور ہے، چاہے وہ کسی بھی فرقہ سے تعلق رکھتا ہو، اور کیسا ہی خوبصورت نام کیوں نہ اختیار کرلے۔

حالانکہ تقلید سے مبرا کوئی نہیں ، ہاں ائمہ گرام کی تقلید سے ضرور دامن جھاڑ سکتے ہیں لیکن تقلید کا مسئلہ عقائد کے اندر شامل نہیں، ہم نہیں کہہ سکتے کہ جوشخص تقلید کو ناجائز کہتا ہے اسکے ایمان میں کوئی کمی ہے لیکن ہم یہ بھی نہیں مان سکتے کہ جوائمہ گرام میں سے کسی کی تقلید کرتا ہے وہ مومن نہیں رہتا، یا وہ بے دین ہو جاتا ہے، یا اسے رسول سیلی یہ اہم یا احادیث کا مخالف کہا جانا چاہئے ، یہ تمام باتیں لغو اور امت میں خلفشار وفتنہ کا سبب ہیں، مسالک کے درمیان اختلاف ہو جانا بالکل فطری امر بلکہ ایک ناگزیر ضرورت ہے، اور یہ اختلاف امت کیلئے رحمت ہے لیکن ایسا اسی وقت تک ہے جبکہ یہ اختلاف بغض و عناد، فتنہ وفساد تک نہ پہنچے، جب تک علمائے کرام ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرتے رہیں، اور اختلاف کو ایماندارانہ طور پر، خالص دینی فکر کے تحت قائم رکھیں ، اس میں نہ اپنی ہٹ دھرمی کو جگہ دیں، نہ کسی سے خدا نا واسطے عناد کو عمل میں لائیں ، علمائے امت کے لئے کرنے کے اور بہت سے کام ہیں، ان میں ہی اپنی صلاحیت و وسائل کو صرف کریں ، نہ کہ امت کے درمیان اختلاف کی آگ دہکانے میں۔ یہ مختصر کتابچه ای جذبہ کے تحت رقم کر گیا ہے کہ اسلاف کی طرح ہم ایک دوسرے کا احترام کریں، ایک دوسرے کے اختلاف کا بھی احترام کریں، اختلاف کو قبول کریں، اسی کا نام باہمی اتحاد ہے، عدم اختلاف کا نام اتحاد نہیں ، بلکہ وجود اختلاف کے باوجود باہم دست وگریبان نہ ہونے کا نام اتحاد ہے، اللہ تعالیٰ اس مختصر کاوش کو قبول فرمائے ، اور امت مسلمہ کے علمائے کرام کو باہم شیر وشکرفرمادے۔آمین

والصلاة والسلام على سيدنا محمد وآله وصحبه أ

أجمعين

عمران علی مظاہری

۲۵/شعبان ۱۴۴۲ ، ۸ را پریل ۲۰۲۱ م

Taqleed ke Shikar

By Maulana Muhammad Imran Ali Mazahiri

Read Online

Download (1MB)

Link 1      Link 2

توجہ فرمائیں

توجہ فرمائیں

ای اسلامک بک ویب سائٹ آپ کو عرصہ چھ سال سے مفت آن لائن کتابوں کی سہولت فراہم کر رہی ہے۔ جس کی ڈومین، ہوسٹنگ اور منیجمنٹ پر سالانہ دو لاکھ سے زیادہ کا خرچہ آتا ہے۔ 

حالیہ عرصہ میں ویب سائٹ کو جاری رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ جس کی وجہ سے آج چھ سال بعد پہلی بار ہم آپ سے تعاون کی اپیل کر رہے ہیں۔

اس صدقہ جاریہ کو جاری رکھنے کے لیے آپ کے بھیجے ہوئے سو یا پچاس روپے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ تعاون کرنے کے لیے اس وٹس اپ نمبر پر رابطہ کریں:

https://wa.me/+923215083475

توجہ فرمائیں eislamicbook healp

اصول الفقہ

اصول الفقہ

بسم الله الرحمن الرحیم

مقدمه مؤلف

الحمد لله وكفى سلام على عباده الذين اصطفى، أما بعد! زیر نظر کتاب اسلامی و عربی علوم وفنون کے سلسلہ تسہیل کی ایک کڑی ہے، اشاعت کے اعتبار سے اس سلسلہ کی چھٹی اور اس سلسلہ میں احقر کی شرکت و شمولیت

کی دوسری کڑی ہے۔ بانی جامعہ عربیہ ہتھورا، بانده، سیدی و سندی حضرت مولانا صدیق احمد صاحب مدظلہ جو اس فکر کے داعی اور سلسلہ کی اکثر کتب کے مؤلف ہیں، حضرت موصوف کو علم بلاغت اور علم اصول فقہ میں خاص طور سے اس کام کی فکر تھی اور احباب سے اس کا ذکر و تقاضا فرماتے رہتے تھے ، احقر نے اس تقاضے سے تاثیر کے تحت، پہلے مرحلہ میں بلاغت پر کام کیا جو الحمدللہ تسہیل البلاغۃ“ کے نام سے مطبوعہ صورت میں

دستیاب ہے۔

دوسرے مرحلے میں اس کام کو انجام دینے کی سعادت حاصل کی، جس کے آغاز پر چند سال کا عرصہ مکمل ہونے اور اس عرصہ میں کام کے مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد اب الحمد للہ اس کی طباعت اور اشاعت کی نوبت آرہی ہے ، اور اس امید کے ساتھ کہ احقر نے اس کے ساتھ ساتھ اصول حدیث پر جو اسی انداز کا مجموعہ ترتیب دیا ہے، انشاء اللہ جلد اس کی اشاعت کا نمبر آجائے گا، اور پھر کیا بعید ہے کہ آخری کڑی ”اصول تفسیر پر بھی کچھ کا وش و کوشش کی توفیق ہو جائے اور یوں یہ سلسلہ

و جنامه مسك كا مصداق قرار پائے ، وما توفيقي إلا بالله

کتاب کی موجودہ صورت میں جو اشاعت پذیر ہورہی ہے، یہ اس کی تیسری حیض کا نتیجہ ہے، اونی معلومات و مواد جمع کرنے کے بعد تبیض کی اور استاذی مولانا محمد زکریا صاحب استاذ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو کی خدمت میں پیش کیا، انھوں نے تحسین کے ساتھ کچھ مشورے دیئے ، پھر دوسری مرتبہ تبیض میں لگا ، اور تکمیل کے بعد مزید توفیق و اعتماد کے لیے مکرمی مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری استاذ دارالعلوم دیوبند کی خدمت میں مجموعہ کو پیش کیا، انھوں نے بھی سرسری نظر سے ملاحظہ فرما کر تحسین کی ، اس عرصہ میں ایک کاپی کرمی و منظمی حضرت مولانا محمد تقی صاحب عثمانی (کراچی) کی خدمت میں پہنچی اور انھوں نے بڑی ہمت افزائی فرمائی ، البتہ اس وقت تک کے کام میں یہ خامی تھی کہ مسائل کے ساتھ حوالہ جات کا اندراج نہیں تھا، کچھ خود داعیہ ہوا ، کچھ بعض اکابر کی تاکید ہوئی اور اس کام کی طرف متوجہ ہونا پڑا، اور اس کے لیے از سر نو تمام مراجع کو جمع کر کے سارے مباحث کو کھنگالنا پڑا اور بالآخر بتوفیق خداوندی حوالہ جات کے ساتھ تیسری تبعیض تکمیل کو پہنچی۔

اس مجموعہ میں ابتدائی مراحل سے لے کر انتہائی مراحل تک تدریس و تصنیف سب لائنوں میں عموماً جو اصول سامنے آتے رہے ہیں، ان سب کو جمع کرنے کی سعی کی گئی ہے، تا کہ کتاب بہتر سے بہتر تعارف کا ذریعہ بن سکے اور اس کے مباحث صرف اصول کے بیان یعنی ان کی تعریفات ، احکام، امثلہ اور اقسام و بعض ضروری توضیحات و تفصیلات پر مشتمل ہیں، نہ اختلافات کا ذکر ہے اور نہ دلائل کا، احناف کے مختلف فیہ اقوال میں سے بھی حسب رجحان یا حسب اختیار فقہاء کسی ایک کو لے لیا گیا ہے۔ اس مجموعہ کی تالیف میں ایک خاص انداز اپنایا گیا ہے، جو ایسے علوم وفنون کے حق میں زائد سے زائد سہولت پر مشتمل اور سودمند سمجھا گیا ہے، جیسے عبارت میں الجھاؤ سے بچنے کی سعی کی گئی ہے، ترتیب عبارات میں بھی اس کا خاص لحاظ رکھا گیا

Usool ul Fiqh

By Maulana Ubaidullah Asadi

Read Online

Download (4MB)

Link 1      Link 2

تحکیم اور جرگہ

تحکیم اور جرگہ

Tahkeem aur Jarga By Mufti Ubaid ur Rahman

Read Online

Tahkeem aur Jarga By Mufti Ubaid ur Rahman تحکیم اور جرگہ

Download (1MB)

Link 1       Link 2

اصول طب

اسمائے حسنی ایک تحقیقی جائزہ

اسمائے حسنی ایک تحقیقی جائزہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تقدیم

حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی ، دار العلوم وقف دیوبند اسمائے حسنیٰ

ایک تحقیقی جائزہ

اسمائے حسنیٰ کی عظمت و اہمیت مسلم معاشرے میں ایک حد تک معروف ہے ، اسی کے تحت ابتدائی مکاتب میں حفظ قرآن کریم کے ساتھ اسمائے حسنیٰ یاد کرانے اور روزانہ ان کو پڑھوانے کا مفید و کارآمد معمول بھی ہے ، ایسے ہی اوراد و وظائف سے دلچسپی رکھنے والے حضرات بھی اسمائے حسنیٰ سے استفادہ کرتے ہیں ، اسی طرح علماء کرام بھی اپنے مواعظ میں اسمائے حسنیٰ کے فضائل بیان کر دیتے ہیں، ان تمام معمولات کے باوجود عمومی طور پر عوام کا تو کیا علما کا ذہن بھی اس طرف ملتفت نہیں ہوتا کہ اسمائے حسنیٰ کے بارے میں کچھ علمی وحل طلب مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں۔

چنانچہ پہلا سوال تو یہی قائم ہوتا ہے کہ اسمائے حسنیٰ ۹۹ ہی ہیں یا کم وبیش کا بھی احتمال ہے؟ دوسرے یہ کہ یہ ۹۹ اسمائے حسنیٰ قرآن کریم بھی موجود ہیں یا نہیں؟ نیز یہ کہ اسم ذات اللہ ۹۹ اسمائے حسنیٰ میں شامل ہے یا زائد ہے؟

اگر یہ شامل ہو تو اسمائے حسنیٰ کی تعداد 99 کے بجائے ۱۰۰ ہو جاتی ہے جبکہ ابو ہریرہ کی روایت بخاری میں ہے کہ نبی کریم صلی السلام نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے ۹۹ نام ہیں یعنی ایک کم سو، اس سے معلوم ہوتا ہے اسم اللہ ان ۹۹ میں شامل نہیں ہے ، اور حدیث مبارک: إِنَّ الله وِثر يُحِبُّ الْوِثر کے تحت بھی ۹۹ ہی وتر ہے ، ۱۰۰ وتر نہیں ہے ، دوسرے نکتہ نگاہ سے دیکھیں تو اسم اللہ وتر ہے، اور ۹۹ کا عدد الگ ایک وتر ہے تو اس سے مفہوم یہ ہی نکلتا ہے کہ اسم ذات اللہ ۹۹ اسمائے حسنیٰ سے الگ ہے، اس علیحدگی سے دونوں کی و تربیت بھی قائم رہتی ہے اور عدد 99 بھی۔ لیکن پھر سوال یہ ہے کہ قُلِ ادْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَنَ میں رحمن کو ذکر ا الله کے مساوی قرار دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسمائے حسنیٰ میں ذاتی اور صفاتی کی تقسیم نہیں ہے، جبکہ اہل علم ذاتی اور صفاتی کی تقسیم مانتے بھی ہیں اور بتلاتے بھی ہیں۔ نیز یہ بھی ایک سوال کی صورت اختیار کرتا ہے کہ اسمائے الہی کا 99 میں حصر نہیں ہے، بلکہ ارشاد نبوی کا مقصد یہ ہے کہ ان ۹۹ کا پڑھنا جنت میں داخلے کا اہم وسیلہ ہے، جبکہ بعض ارباب علم کے اقوال یہ بھی ہیں اسمائے الہی کا حصر ۹۹ ہی ہے اس میں اضافہ ناجائز ہے، جس پر مرآۃ الا واحدۃ کی تصریح واضح دلیل ہے۔

پھر اس کے برخلاف ایسی روایات بھی ہیں کہ جن سے ۹۹ میں اسمائے الہی کا حصر

مفہوم نہیں ہوتا بلکہ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ۹۹ سے کہیں زیادہ ہیں۔ پھر قرآن کریم میں مذکور افعال الہی سے اسماء کا اشتقاق بھی صحیح نہیں ہے، اس لئے کہ بعض افعال ایسے بھی ہو سکتے ہیں کہ جن سے مشتق اسم اللہ رب العزۃ کی عظمت و جلال

کے خلاف ہو ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسمائے الہی وہی صحیح ہیں کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے

اپنے نام سے موسوم فرمایا ہے۔

پھر بات یہیں آ کر ٹھہرتی ہے کہ ان اسمائے حسنیٰ کی تعداد ۹۹ ہی ہے جن کو یاد کرنے پر جنت کی بشارت دی گئی ہے، جس کی تاکید نبی کریم صلی یا یہ ہم نے یہ کہ کرفرمائی ہے کہ اللہ کے نام ایک کم سو ہیں، اس سے ۹۹ کی تاکید مزید ہو جاتی ہے۔

اور عبدالرزاق الرضوانی کا یہ قول کہ اللہ کے بہت سے ایسے نام لوگوں کی زبان زد ہیں جو حقیقہ اللہ کی صفات یا افعال ہیں ، اسماء نہیں ہیں ، اور اسلاف صالحین کی روش سے بھی یہی مفہوم ہوتا ہے کہ اسمائے الہی توقیفیہ ہیں جس میں عقلی اجتہاد کے ذریعہ اسکے اوصاف یا افعال سے اسماء مستنبط کرنا صحیح نہ ہوگا، لہذا اسمائے الہی کی توقیفیت اس امر کی

متقاضی ہے کہ ان ۹۹ اسمائے الہیہ پر دلائل قرآنیہ موجود ہوں۔

اللہ رب العزة کی صفات و افعال بے شمار قرآن کریم میں مذکور ہیں ، ان سے اشتقاق کرنے سے اسمائے الہی بے شمار ہو جاتے ہیں ، جیسا کہ اس قسم کے اسماء بعض کتب حدیث میں لکھے ہوئے بھی ہیں لیکن علمائے حدیث نے جس روایت کی بنا پر پر یہ اسماء مشتق کئے گئے ہیں اس کو غیر ثابت اور ضعیف تسلیم کیا ہے، لہذا اس سے بھی صفات

یا افعال سے اسماء کا اشتقاق صحت کو نہیں پہنچتا۔ ساتھ ہی یہ حقیقت بھی لائق ذکر ہے کہ ۹۹ اسماء الہیہ ( بالاستیعاب) نه قرآن کریم میں وارد ہیں اور نہ کسی صحیح حدیث میں موجود ہیں۔

کتاب ہذا میں ان تمام سوالات پر انتہائی شافی و کافی مکمل و مدلل جوابات جمع فرمائے گئے ہیں، اور ساتھ ہی مؤلف محترم مولانا محمد عمران صاحب مظاہری نے قرآن و حدیث سے ماخوذ ۹۹ اسمائے الہیہ بھی اس کتاب میں تحریر فرمادے ہیں ، کتاب کی علمیت ، صحت اور پیش آمدہ سوالات کے جوابات کی مدللیت نے اس کتاب کی افادیت کو انتہائی وقیع ، قابل قدر اور لائق شکر بنا دیا ہے، جس کو پڑھ کر اسمائے حسنیٰ کے متعلق نہ صرف مسائل معلومہ کا علم صحیح ہی حاصل ہوتا ہے بلکہ ان کے پر تاثیر فضائل کو پڑھنے کے بعد ان کو پڑھنے کی توفیق بھی ہونے لگتی ہے، حق تعالیٰ مؤلف محترم کے علم میں ، اخلاص

میں ، اعمال میں ، طاعات و عبادات میں بے حساب برکات و مقبولیت ارزانی فرمائے۔ امید ہے کہ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ہر قاری اسمائے حسنیٰ پڑھنے کے لئے انشاء اللہ موفق بھی ہوگا ، اور سب کی توفیقات کے اجر و ثواب میں انشاء اللہ مؤلف محترم عند اللہ

شریک و سہیم بھی رہیں گے۔

وفقه الله لخدمة الإسلام والمسلمين فى المستقبل أهم و أكثر من ذى

قبل والله الموفق والمعين

( حضرت مولانا ) محمد سالم (صاحب) قاسمی

۲۵ شعبان ۱۴۳۴ھ ۵/ جولائی ۲۰۱۳ ء یوم الجمعه

Asma e Husna Ek Tahqiqi Jaiza

By Maulana Muhammad Imran Mazahiri

Read Online

اسمائے حسنی ایک تحقیقی جائزہ

Download (11MB)

Link 1      Link 2

مولانا محب الحق نقوش و تاثرات

مولانا محب الحق نقوش و تاثرات

بسم اللہ الرحمن الرحیم

افتتاحیه

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على سيد الأنبياء وأشرف المرسلين، وعلى آله وصحابته أجمعين. وبعد والد گرامی حضرت مولانا محب الحق رحمہ اللہ کی ۶۵ سالہ حیات مستعار تدریس و تالیف تحقیق و ترتیب، اصلاح و تربیت، دعوت و تبلیغ اور عبادت وریاضت سے معمور تھی ، وہ اپنے مشن اور مقصد میں ہمہ تن مصروف تھے، اپنے استاد گرامی قدر مفتی نسیم احمد فریدی امروہی کے علوم و معارف کی جمع و ترتیب، تدوین و تالیف اور نشر واشاعت، ان کی زندگی کے اہم مقاصد میں سے ایک تھا، جس کے لیے انہوں نے اپنی تمام تر توانائیاں، صلاحیتیں اور زندگی کے شب و روز وقف کر دیے، اخیر کے سالوں میں والد صاحب کے یہاں تصنیف و تالیف کا عمل تیزی سے رواں دواں تھا، تقریبا ہر سال کوئی نہ کوئی کتاب طباعت سے آراستہ ہو کر منصہ شہود کی زینت بن جاتی ؛ ذاتی طور پر مجھے خود اس پر مسرت آمیز تعجب ہوتا، چوں کہ ظاہری احوال کے پیش نظر دل میں کبھی یہ بات نہیں آئی کہ ان کی زندگی اپنے آخری مراحل میں ہے؛ لہذا ازل سے طے شدہ ضروری کاموں کی تکمیل کے لیے غیبی منصوبہ بندی کے تحت تیز گامی اور تیز رفتاری کی یہ ہمیز لگائی گئی ہے۔

والد محترم کی صحت اچھی تھی کسی مہلک اور خطر ناک بیماری کے شکار نہیں تھے، لہذا دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ تصنیف و تالیف کا محبوب مشغلہ اپنی سابقہ رفتار کے ساتھ جاری وساری تھا، اپنے استاد مکرم مفتی نسیم احمد فریدی امروہی کی ایک جامع مفصل اور مستند سوانح حیات تصنیف فرمارہے تھے کہ اچانک ۱۵ شوال المکرم ۱۴۳۴ھ مطابق ۲۳ / اگست ۲۰۱۳ء کی رات کو ان پر دل کا شدید حملہ ہوا اور ایک ہفتہ کے اندر ہی اس عالم فانی سے عالم جاودانی کی طرف رحلت فرما گئے ۔ إنا لله وإنا إليه راجعون! حضرت مولانا محب الحق نے اپنے اخلاق واوصاف، معاملات و معاشرت، عبادت وریاضت، خیر خواہی و ہمدردی، اطاعت شعاری و وفاداری، اصلاح و تربیت اور تصنیف و تالیف کے لحاظ سے ایک مثالی زندگی گزاری ، چناں چہ عزم و ہمت ، صبر و شکر، قناعت و خود داری بیم جد وجہد مسلسل کام کی دھن اور لگن، عبادت وریاضت، تعلیم پیہم و تربیت، تحقیق و تصنیف، اخلاص وبے نمائی، اعلی اخلاق اور اپنے استاذ کے تئیں بے مثال اطاعت شعاری و وفاداری ان کی زندگی کے نمایاں اوصاف تھے۔ اور ان کی قابل رشک زندگی ہمارے لیے مینارہ نور اور نئی نسل کے لیے سرمہ بصیرت کی حیثیت رکھتی ہے ؛ اسی لیے ہم نے مصمم عزم کیا کہ آپ کی روشن حیات و خدمات کو کتاب کے اوراق میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیا جائے ؛ تا کہ ہم اپنی زندگی کی مختلف راہوں میں اس نورانی مشعل سے روشنی اور رہنمائی حاصل کر سکیں اور ان کے نقش قدم پر چل کر کسی بھی درجہ میں ان کے جیسی با مقصد زندگی گزارنے کی کوشش کر سکیں؛ کیوں کہ عظیم انسانوں کے پر عظمت کا رنامے پڑھ کر فطری

طور پر دلوں میں ان جیسا بنے اور کچھ کر گزرنے کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ لہذا والد گرامی کی وفات کے بعد سے ہی ان کی سوانح حیات کی تالیف کا عمل شروع کر دیا گیا، لیکن یہ کام کم از کم مجھ جیسے بے مایہ کے لیے آسان نہیں تھا؛ کیوں کہ اس کتاب کو ایک سوانحی مرقعہ بنانے کے لیے ہم نے درج ذیل امور پر تفصیلی روشنی ڈالنے کی

اپنی سی کوشش کی ہے: ۱) وطنی اور خاندانی تفصیلات ، جہاں صاحب سوانح کی نشو و نما ہوئی اور جوان کی زندگی میں خشت اول کی حیثیت رکھتی ہیں۔

۲) تعلیم و تربیت کے لحاظ سے زندگی کے مختلف ادوار اور علمی مراکز ، جہاں

صاحب سوانح کی شخصیت سازی ہوئی۔

۳) اساتذہ اور ان کے احوال، جو صاحب سوانح کی شخصیت سازی میں معمار

کی حیثیت رکھتے ہیں۔

۴) مختلف علمی عملی اور دعوتی خدمات اور کارنامے، جن سے صاحب سوانح کی

گونا گوں صلاحیتوں کا ظہور ہوا۔

۵) تصنیفات و تالیفات کا تفصیلی تعارف، جو صاحب سوانح کی فنی مہارت کی

معاصرین اور ان کے تاثرات، جن میں سے ہر ایک اپنے مخصوص زاویہ نگاہ

سے صاحب سوانح کی زندگی کو دیکھتے ہیں۔

ے مشاہیر جن سے خصوصی تعلق رہا اور جنھوں نے صاحب سوانح کی خدمات کو

تحسین کی نگاہوں سے دیکھا۔

ظاہر ہے کہ ان تمام عناصر پر مواد حاصل کرنا اور انہیں مرتب کر کے کتابی شکل وصورت میں ڈھالنا محنت طلب ، دشوار گزار ، صبر آزما اور نازک کام ہے، جو ایک دو دن میں پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا ، بلکہ میرے لیے یہ تنکا تنکا جمع کر کے آشیانہ بنانے جیسا عمل تھا؛ چناں چہ والد صاحب کے کتب خانہ کے پورے ذخیرہ کو کھنگالنا، متعلقہ چیزوں کو جمع کرنا ، ڈائریوں ، کاغذات، مسودات اور خطوط کے مطالعہ اور انتخاب میں دماغ سوزی سے کام لینا، والد صاحب کے ہم عصر اصحاب علم و قلم ، خاندان کے بزرگوں اور کتاب میں ذکر کردہ شخصیات کے احوال زندگی کے لیے ان کے وارثین اور دیگر علماء سے بار بار رابطہ کرنا اور تاریخی مواد کے لیے متعلقہ کتابوں کی حصول یابی کے لیے دوڑ دھوپ کرنا وغیر غیرہ، یہ تمام ایسے مراحل ہیں، جن میں بڑے صبر، ہمت اور پیہم طلب و جستجو کی ضرورت تھی ، صرف اور صرف اللہ تبارک و تعالی کی توفیق سے ان مراحل کو طے کرنے کی قوت اور سعادت حاصل ہوئی۔

پہلے ارادہ تھا کہ والد صاحب کے مقالات و مضامین کو بھی اسی کتاب میں شامل کیا جائے ، پھر طوالت کے پیش نظر اسے موقوف کرنا پڑا؟ تاہم اس کتاب میں جتنی شخصیات کے تذکرے اور سوانحی خاکے ہیں، بجز چند کے سب کے سب والد صاحب کے تحریر کردہ ہیں، انہیں من وعن شامل کتاب کیا گیا ہے؛ تاکہ ان کے ذریعہ صاحب سوانح کا اسلوب تحریر اور ذوق تحقیق قارئین کے سامنے آسکے۔

بہر حال اللہ تعالی کی مشیت اور اس کی توفیق سے یہ سوانح ترتیب و تالیف کے قالب میں ڈھل چکی ہے؛ لہذا تعریف کے جملہ کلمات اور شکر کی تمام ادا ئیں اس باری عز اسمہ کی خدمت اقدس میں پیش ہیں، جس نے اس ذرہ بے مقدار کو ہمت، قوت اور توفیق عطا فرمائی اور اس گراں قدر سوانح کی تالیف کے دیرینہ خواب کو شرمندہ تعبیر کیا۔

فَلِلَّهِ الْحَمْدُ رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَرَبِّ الْأَرْضِ رَبِّ الْعَالَمِينَ . وَلَهُ

الْكِبْرِيَاء فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ . (سورة

الجاثية: ٣٧،٣٦)

اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ اقدس میں عاجزانہ دعا ہے کہ اس ادنی کاوش اور حقیر کوشش کو شرف قبولیت سے نوازے، قارئین کو اس سے دینی نفع پہنچائے ، ہمارے والدین، جملہ عزیز واقارب اور مجھ سیاہ کار کے لیے اسے ذخیر ہ آخرت بنائے۔

رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ. (سورة البقرة: ۱۲۷)

اس موقع پر استاذ گرامی قدر نمونہ سلف حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان منصور پوریؒ، حضرت مولانا برہان الدین سنبھلی، حضرت مولانا سید محمد سلمان منصور پوری، حضرت مولانا نورالحسن راشد کاندھلوی، ان کے خادم خاص مولانا ارشد قاسمی کاندھلوی، حضرت مولانا سالم جامعی ، مولانا ضیاء الحق خیر آبادی، جناب تکلیف الرحمن سنبھلی ، ڈاکٹر مصباح احمد صدیقی امروہی ، ڈاکٹر جنید اکرم فاروقی امروہی ، مفتی ریاست علی رام پوری، مفتی امانت علی قاسمی، مفتی نوشاد نوری، مولانا غفران اللہ مفتی جو ہر علی قاسمی، مولانا اسد پر وہی اور دیگر صاحبان علم و قلم کا احقر دل کی گہرائیوں سے ممنون و مشکور ہے، ان حضرات نے بے پناہ مصروفیات کے باوجود احقر کی درخواست پر اپنی گراں قدر تحریروں سے نوازا۔ فجزاهم

الله خير ما يجزى عباده الصالحين من الكرماء والنبلاء.

Maulana Mohib ul Haq Nuqoosh wa Tasurat

By Mufti Imdad ul Haq Bakhtiyar

 

Read Online

MAULANA_MOHIB_UL_HAQ_NUQOOSH_TASURAAT مولانا محب الحق نقوش و تاثرات

Download (4MB)

Link 1      Link 2

مجمع الساری

مجمع الساری

شرح ام الکتاب فی تفسیر بیضاوی مع مشکوۃ المصابیح کے ۴۰ فقہی مسائل

تالیف: مفتی محمد طلحہ ارشاد

Majma al Sari

By Mufti Muhammad Talha Irshad

Read Online

Download (3MB)

Link 1      Link 2

 

آئیے عربی سیکھیں

آئیے عربی سیکھیں

آئیں عربی سیکھیں

حج عمرہ اور خلیجی ممالک میں سفر کرنے والوں کے لیے نادر تحفہ

Aaiye Arabi Seekhain

Read Online

Download

 

غزوہ ہند

غزوہ ہند

پروفیسر ڈاکٹر عصمت اللہ

جنت تلواروں کے سائے تلے ھے

حضرت ابوبکر بن ابو موسیٰ اشعری بھی اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ کو فرماتے ہوئے سنا اس حال میں کہ وہ دشمن کا مقابلہ کر رہے تھے۔ فرما رہے تھے کہ رسول اللہ نے علیم نے فرمایا بے شک جنت کے دروازے تلواروں کے سائے تلے ہیں۔ یہ سن کر ایک پراگندہ شکل والا آدمی کھڑا ہوا اور کہا کہ اے ابوموسیٰ ! کیا یہ بات تو نے اللہ کے رسول نے کام سے

خودسنی ہے؟ جواب دیا ، ہاں۔ تو وہ اپنے ساتھیوں کی طرف پلٹا اور انہیں الوداعی سلام کہا پھر اپنی تلوار کی

نیام کو توڑ کر پھینک دیا اور تلوار لے کر دشمن میں گھس گیا اور شہید ہو گیا۔

(صحیح مسلم ، کتاب الامارة، باب ثبوت الجنة للشهيد)

GAZWA E HIND

Read Online

غزوہ ہند

Download

 

مصنوعی گوشت کے بنیادی احکامات

مصنوعی گوشت کے بنیادی احکامات

مولانا معاذ اشرف صاحب

شرعی قواعد وضوابط کی روشنی میں مصنوعی گوشت

Lab Grown Meat کے بنیادی احکامات

آجکل مصنوعی گوشت کا چلن ہوتا جارہا ہے۔ اس موضوع پر عزیزم مولوی معاذ الشرف کہ نے بو تحیر رکھی ہے۔ اسمیں بندہ کا مشورہ بھی شامل رہا ہے۔ اور بفضلہ تعالی موضوع کی اچھی تحقیق اس تحریر میں آگئی اسے جو ان شاء اللہ تعالی علماء و طلبہ کیلئے مفید ہوگی حقوقی قرانی

تعارف

اسلام بلا شبہ ایک ایسا دین ہے جس میں زندگی کا کوئی پہلو خدائی احکامات اور نبوی تعلیمات سے خالی نہیں۔ اور کیونکہ یہ دین قیامت تک باقی رہنے کے لئے ہے اس لئے اس کے احکامات اور قوانین وضوابط ایسے ہیں کہ ہر دور میں اس دین پر عمل کرنا ممکن ہے ۔ بحیثیت مسلمان ہم حلال غذا استعمال کرنے کے پابند ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ ترقی یافتہ دور میں کسی بھی حرام اور ناجائز عصر سے پاک حلال غذا استعمال کرنا مسلمانوں کے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں رہا، کیونکہ بے شمار اشیاء خر ونوش اور ان میں شامل لا تعداد اجزائے ترکیبی نے حلال و حرام کے مابین فرق کو بہت دشوار بنا دیا ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ کثرت سے

مع النان ۱۴۴۵ نومبر 2023ء ۲۱

حرام اجزاء کا عام استعمال ہے جس نے موجودہ دور میں اکثر اشیاء خردونوش اور ان کے اجزائے ترکیبی کے بارے میں یہ اطمینان چھین لیا ہے کہ یہ مکمل طور پر حلال ہیں۔ لہذا ایک عرصہ سے اس کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ مختلف اشیاء اور اور ان کے اجزائے ترکیبی پر تحقیق کی جائے تاکہ ان کا حلال یا حرام ہونا واضح ہو سکے۔ یہ تحقیقی مقالہ بھی ضرورت کے اسی تقاضے کو پورا کرنے کی ایک ادنی سی کوشش اور مقالے کو لکھنے کا بنیادی محرک بھی ہے۔ مصنوعی گوشت بھی نئی دریافت یا ایجادات میں سے ایک ہے، جو فوڈ اور میڈیکل سائنس کی مشترکہ کاوش ہے اور کئی طرح کی ٹیکنالوجی وغیرہ کے استعمال سے وجود میں آتا ہے، نیز اس وقت فوڈ سائنس اور حلال کے میدان میں تحقیق اور توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

اس مقالے کا بنیادی موضوع تو مصنوعی گوشت کی حلت و حرمت سے متعلق تحقیق پیش کرنا ہے، لیکن کیونکہ مصنوعی گوشت کی حلت و حرمت کا دارو مدار بہت سی ان چیزوں پر ہے جو اس میں شامل ہیں، مثلاً یعنی اسٹیم سیلز (Stem Cells) جو مصنوعی گوشت کی بنیاد ہیں، اور دیگر اجزاء وغیرہ۔

الہذا اس مقابلے میں سب سے پہلے اسٹیم سیلز (Stem Cells) یعنی الخلاية الجذعية“ سے بحث کی گئی ہے، کیونکہ فی الحال مصنوعی گوشت اسی سے تیار کیا جا رہا ہے، پھر اس میں اسٹیم سیلز کی اقسام اور ان کے حصول کے ذرائع کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ اس کے بعد مصنوعی گوشت پر گفتگو کی گئی ہے، جس میں اس کے بنیادی مراحل، طریقہ کار، اور استعمال ہونے والے اجزاء ترکیبی کو بیان کرنے کے بعد آخر میں اس بات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ مصنوعی گوشت کا استعمال حلال ہے یا نہیں؟ اور آیا اس میں استحالہ کا تحقق ہوتا ہے یا نہیں؟ چنانچہ علماء کرام اور ماہرین فن کے غور وفکر کے لیے یہ مقالہ پیش کیا جارہا ہے۔ اللہ رب العزت اس ادنی کوشش کو اپنے کامل فضل سے قبول و منظور فرما ئیں ۔ آمین۔ استیم خلیات (Stem Cells) کا تعارف اسٹیم خلیات کے اصل اور بنیادی مآخذ تین طرح کے ہوتے ہیں:

ا۔ انسان

۲۔ جانور

۔ پودے وغیرہ

حلال اور حرام کی بحث کا اصل تعلق زیادہ تر جانداروں سے حاصل کئے گئے اسٹیم خلیات سے ہے،

Masnoi Ghosht

By Maulana Muhammad Maaz Ashraf

Read Online

Download (3MB)

Link 1      Link 2

امام مہدی زمانہ ظہوراورعلامات

امام مہدی زمانہ ظہوراورعلامات

امام حافظ شهاب الدين ابو العباس احمد بن محمد ابن حجر الصيتى المكي الشافعي

ترجمه و تحقیق

محمد سراج الدین قادری مصباحی

Imam Mehdi Zamana E Zahoor Aur Alamat

Read Online

امام مہدی زمانہ ظہور اور علامات

Download PDF

ہاں خدا ہے

ہاں خدا ہے

الحاد اور خدا کے انکار کے بارے ایک بہترین کتاب

مفتی عبدالحکیم سکھروی

HAAN KHUDA HAY

Mufti Abdul Hakeem Sakkurvi

ڈاون لوڈ کریں

کیا خدا ہے

کیا خدا ہے

الحاد اور خدا کے انکار کے بارے ایک بہترین کتاب

مفتی عبدالحکیم سکھروی

kiya khuda hay

Mufti Abdul Hakeem Sakkurvi

آن لائن پڑھیں

ڈاون لوڈ کریں

 

Atheism

اتحاد المدارس نصاب

اتحاد المدارس نصاب

syllabus Ittehad ul Madaris

نظام المدارس نصاب درس نظامی

نظام المدارس نصاب درس نظامی

نظام المدارس ڈگری کی قانونی حیثیت

”نظام المدارِس پاکستان“ کے تحت جاری شدہ الشهادة العالمية في العلوم العربية والإسلامية کی ڈگری ایم۔ اے عربی و اسلامیات کے مساوی ہو گی۔

”نظام المدارِس پاکستان“ کی جاری کردہ ڈگری/اِسناد ہر سطح کے سول و عسکری، سرکاری و نیم سرکاری اور غیر سرکاری اِداروں میں تعلیمی، تدریسی اور اِنتظامی عہدوں/خدمات کے لیے قابلِ قبول ہوں گی

Nizam ul Madaris Pakistan Intro-and Syllabus

 

 

فقہ و حدیث میں علماء احناف کا مقام

فقہ و حدیث میں علماء احناف کا مقام

فقہ حنفی کا مختصر تاریخی ارتقاء

خدائے ذوالجلال نے ابو البشر سید نا آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم النبیین، جناب رسول اللہ صلی ال تیک برگزیدہ انسانوں کی ایک مقدس جماعت کو مبعوث فرمایا جو آسمان رشد و ہدایت کے تابندہ و درخشندہ کہکشاں تھے۔ ہر دور میں اللہ رب العزت نے ہر نبی کی قوم کے شایانِ شان اور بشری تقاضوں کے مطابق ایک کامل اور جامع دستور حیات نازل فرمایا تاکہ اس کی روشنی میں انسانیت خدا کی معرفت حاصل کر سکے اور انبیاء کے لائے ہوئے دین کو حرز جان بنا سکے ۔ کم و بیش تمام انبیاء کے ایسے انصار و حوار بین رہے ہیں جنھوں نے ان برگزیدہ ہستیوں کی رہنمائی کے مطابق اپنے دینی اور دنیوی امور کو ڈھالنے کو سعادت سمجھا اور ان کے ایک ایک حکم اور اشارے پر اپنی زندگیاں قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہے۔ لیکن تمام انبیاء کے دور میں انسانوں کی ایک بڑی جماعت ان کی مخالفت کرتی رہی، ان کی دعوت کو والے درمے مجھے قدمے نقصان پہونچاتی رہی، اور اس طرح سے شقاوت و بد بختی ان کا مقدر بن کر رہ گئی۔ یہی نہیں؛ بلکہ انبیاء کی ایک بڑی تعداد کو بنی اسرائیل کے ہاتھوں قتل ہیک کیا گیا۔ العیاذ باللہ۔

انبیاء کرام کے اس دار فانی سے دار جاودانی کی جانب کوچ کرتے ہی متعدد دینی فرقے اور سیاسی جماعتیں اپنا نا پاک ایجنڈا لے کر سماج کے سامنے ظاہر ہوئیں۔ بعض نے ان انبیاء کی مقدس کتابوں میں تحریف کا بیڑا اٹھایا اور کتب مقدسہ کو ردو بدل کر کے تحریر مشق بنادیا، جب کہ بعض دیگر فتنہ پردازوں نے انبیاء کے دین میں خرافات و اوہام، اور بے سروپا باتوں کو داخل کر کے دین کے ساتھ بد ترین تمسفر کیا، اور اس طرح سے خدا کے ذریعہ یہ بھیجی ہوئی کہتا میں تحریف کی نذر ہونے کی وجہ سے اکثر لوگوں کے لیے سلمان زیغ و ضلال بن گئیں۔ لیکن اللہ رب العزت نے انسانیت کے لیے اپنے سب سے آخری نبی محمد صلی الیکم کا انتخاب فرمایا اور آپ کو ایسی کتاب عطا کی جس کو ہمیشہ تمام تحریفات اور ردو بدل سے محفوظ رہنے کی خدائی ضمانت دے دی گئی ہے اور جسے کوئی بھی شخص کسی بھی دور میں تحیہ مشق نہیں بنا سکتا۔ چنانچہ قرآن جس طرح رسول اللہ صلیالی و کمی کی زندگی میں پورے طور پر محفوظ تھا، بالکل اسی طرح سے یہ مقدس وحی آج بھی امتِ مسلمہ کے سامنے محفوظ ہے جس میں کسی بھی رو و بدل کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ چونکہ قرآن تمام سابقہ کتابوں کا نچوڑ، تکملہ اور تتمہ ہے اور تا روز قیامت پیدا ہونے والے تمام انسانوں کے لیے آخری مصدر رشد و ہدایت ہے ، اس لیے اللہ تعالی نے اسے انتہائی جامع اور مکمل ترین شکل میں آخری وحی کے طور پر بھیجا، اور یہی کتاب مسلمانوں کا سب سے بڑا فقہی اور تشریعی مصدر ہے۔ رسول اللہ صل علیم اور آپ کے اصحاب کے اقوال وافعال، ارشادات و ہدایات گویا کلام اللہ ہی کی شرح و تو صحیح ہیں۔ دور نبوی میں خود رسول اللہ علیم تمام فقہی، سیاسی، علمی، اور اعتقادی مسائل کا حل اپنے اصحاب کے سامنے بقدر ضرورت پیش فرمایا کرتے تھے۔ صحابہ کرام کو جب بھی کوئی مسئلہ در پیش ہوتا، تو یہ حضرات بار گاہِ رسالت کی جانب رجوع فرماتے اور اپنے سوالات کے جوابات حاصل کر لیتے۔ لیکن آپ مئی میں یکم کی وفات کے بعد اسلام دور دراز ممالک میں پھیل گیا اور امت کے سامنے نئے نئے مسائل پیدا ہونے لگے ۔ عالم اسلام میں بسنے والے مسلمانوں نے مسائل اور استفتاء کے لیے فطری طور پر مستند علماء وفقہاء کی جانب رجوع کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ صحابہ میں ایک تعداد ایسی تھی جو مسائل وفتاوی میں شہرت رکھتی تھی جنھیں فقہاء صحابہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ حافظ ابن حزم ظاہری نے “النبذ في أصول الفقه “ میں اور امام ابن القیم نے إعلام الموقعین“ میں ان مجتہدین صحابہ کی تفصیل پیش کی ہے جن کی خدمت میں حاضر ہو کر صحابہ کرام اور تابعین عظائم اپنے دینی مسائل کا حل طلب کیا کرتے تھے ۔

یقیناً صحابہ میں ایک جماعت اجتهاد و فتاوی کی ذمہ داری انجام دیتی تھے؛ لیکن عام طور پر ان کا یہ کام انفرادی ہوا کر تا تھا۔ ان کا کوئی مکتب فکر اور منظم مدرسہ نہیں تھا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ منظم طور پر فقہ واجتہاد کا سلسلہ کہاں سے شروع ہوتا ہے۔ اس سوال کا جواب دینے کے لیے مورخین لکھتے ہیں کہ سب سے پہلے صحابی جن کو منظم اور اجتماعی انداز سے فقہ وفتاوی کے موضوع پر کام کرنے کا شرف حاصل ہے وہ ہمیں معلم الامة استاذ المسلمين، مجتہد اعظم، حلال المشكلات، خادم رسول، منبع الفقه والفتياء خمارم الرسول، صحابی جلیل سید نا عبد الله

Fiqh o Hadith mein Ulama e Ahnaf ka Maqam

By Allama Zahid Al Kausari

 

Read Online

Download (3MB)

Link 1      Link 2

 

نوازل الفقہ

نوازل الفقہ

نوازل الفقہ نئے فقہی مسائل کا مستند اور مدلل مجموعہ

تالیف: مفتی اختر امام عادل قاسمی

جلد: 1

عصر حاضر میں اسلامی قانون کی معنویت۔ تقلید نقل و عقل کی روشنی میں۔ فقہ مذہبی اور فقہ مقارن۔ مشاجرات صحابہ اور اہل سنت۔ ائمہ مجتہدین کے فقہی اختلافات۔ دوسرے مسلک فقہی پر عمل اور فتوی۔ فقہ اسلامی میں ضرورت و حاجت۔ اعمال میں دائیں اور بائیں کا شرعی معیار

جلد: 2

مسائل زکوۃ نئے حالات کے تناظر میں۔ نصاب زکوۃ میں اصل معیار سونا یا چاندی۔ مدات زکوۃ کی معنویت۔ مدارس میں اموال زکوۃ کا استعمال۔ اسلام کا نظام عشر خراج اور اراضی ہند و پاک۔ مسائل رؤیت ہلال۔ روزہ میں خون دینا۔ منی و مزدلفہ میں قصر و اتمام۔ رمی جمار کے اوقات۔ اجتماعی قربانی بعض مسائل۔

جلد: 3

حرمت مصاہرت۔ ولایت نکاح۔ شریعت میں کفاءت کی حقیقت۔ جبری شادی۔ نکاح کے وقت شرط لگانا۔ طلاق اور اس سے پیدا ہونے والے سماجی مسائل۔ ایک مجلس کی تین طلاق۔ نشہ میں طلاق۔ طلاق اکراہ، طلاق سکران اور تین طلاق پر بعض منحرافانہ خیالات کا جائزہ۔

جلد: 4

غیر اسلامی ممالک میں عقود فاسدہ۔ انٹرنیٹ اور جدید مواصلاتی نظام کے ذریعہ عقود و معاملات۔ باغات کے پھلوں کی خرید و فروخت۔ پانی کے اندر مچھلیوں کی خرید و فروخت۔ عصر حاضر میں حقوق کا تصور اور کاروبار۔ قبضہ کی حقیقت۔ قسطوں پر زمین کی خرید و فروخت کا کاروبار۔ عقد استصناع تحقیق و تطبیق۔ غذائی مصنوعات میں حلت و حرمت کے اصول۔ قلب ماہیت، معیار اور مسائل۔ سکہ اور کرنسی نوٹ۔ والد کے ساتھ کاروباری شرکت۔ کمپنی میں سرمایہ کاری۔ مال حرام سے متعلق اہم مسائل۔ ایکسپورٹ اور امپورٹ کے مسائل و احکام۔ خواتین کی ملازمت۔ بعض سرکاری و غیر سرکاری ملازمتیں۔ جانور کو ادھیا، پوسیا پر دینا۔ طویل مدتی کرایہ اور دکانوں میں حق وراثت۔ کرایہ داری میں ڈپازٹ۔ موبائل اپلیکیشن کے ذریعے گاڑیوں کی بکنگ۔ مالیاتی اسکیموں کے شرعی احکام۔ کاروبار کی تشہیر اور اشتہارات کا کاروبار۔ فرنچائز کا شرعی حکم۔ عقد صیانت یعنی سروس کنٹریکٹ۔ مروجہ انشورنس یا بیمہ۔ اسلام کا نظام تکافل، اسلامی انشورنس۔ میڈیکل انشورنس۔ ہندوستان میں غیر سودی بینکاری۔ تورق یعنی ادھار خرید کر کم قیمت میں نقد فروخت کرنا۔ جی ایس ٹی چند مسائل۔

جلد: 5

خواتین کی اعلی دینی و عصری تعلیم۔ مشترکہ خاندانی نظام۔ ماحولیاتی آلودگی۔ جانوروں کے حقوق اور احکام۔ تشبہ کی حقیقت اور مسائل۔ طبی اخلاقیات۔ کرونا وبا۔ یوتھینزیا کا شرعی حکم۔ موت کی حقیقت۔ سر پر بالوں کی افزائش و زیبائش۔ مصنوعی طریقہ تولید سے ثبوت نسب۔ مشینی ذبیحہ۔ جینیٹک سائنس شرعی مسائل۔ جدید ذرائع ابلاغ۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی۔

جلد: 6

اسلام میں سیاست۔ اسلام امن و سلامتی کا مذہب۔ اسلامی نظام حکومت۔ انسان کی شہریت کا مسئلہ۔ اسلامی قانون جنگ۔ اسلامی حکومت میں غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق۔ اہل کتاب سے متعلق بعض احکام۔ غیر مسلم اقلیت، عہد فاروقی کے بعض قوانین۔ قید کی سزا اور قیدیوں کے حقوق و مسائل۔ مالی جرمانہ شرعی حکم۔ بین مذہبی مذاکرات۔ بین الاقوامی تعلقات۔ غیر مسلم ملکوں میں مسلم اقلیت کے مسائل۔ غیر مسلم ممالک میں نظام امارت شرعیہ۔ غیر اسلامی ملک میں نظام قضا۔ جمہوری انتخابات۔ غیر مسلموں کے ساتھ سماجی تعلقات

Nawazil ul Fiqh

By Mufti Akhtar Imam Adil

Read Online

Vol 01      Vol 02      Vol 03

Vol 04      Vol 05      Vol 06

Download Link 1

Vol 01 (3MB)     Vol 02 (3MB)

Vol 03 (3MB)     Vol 04 (6MB)

Vol 05 (5MB)     Vol 06 (4MB)

Download Link 2

Vol 01 (3MB)     Vol 02 (3MB)

Vol 03 (3MB)     Vol 04 (6MB)

Vol 05 (5MB)     Vol 06 (4MB)

حرف آغاز

الحمد لله رب العالمين والصلوة والسلام على سيدنا محمد امام المرسلين! اما بعد

یہ کتاب جو آپ کے ہاتھوں میں ہے ، نئے فقہی موضوعات و مسائل پر میرے لکھے گئے مضامین و تحریرات کا منتخب مجموعہ ہے، جو میں نے فقہی سیمیناروں اور اجتماعات کے لئے یاد یگر مواقع پر لکھے تھے ، ان میں مسائل کی تصویر بھی ہے، تحقیق و تجزیہ بھی، مختلف حالات پر ان کی تطبیق بھی ہے، اور آخر میں نتائج بحث بھی، اکثر مسائل میں ہمارے معتبر فقہی اداروں کے فیصلے بھی شامل کئے گئے ہیں، تا کہ محققین کے علاوہ اصحاب افتاء اور عام مسلمانوں کے لئے بھی یہ کتاب مفید ثابت ہو اور نئے مسائل میں پورے اعتماد کے ساتھ اس کو فقہ و فتاوی کا ماخذ بنایا جا سکے۔ 

فقہی مسائل پر میرے لکھنے کی سرگذشت

نئے فقہی مسائل پر میرے لکھنے کا سلسلہ ۱۹۸۹ء سے شروع ہوا، شعبہ افتاء سے فراغت کے بعد میں اس وقت دار العلوم دیوبند میں معین المدرس تھا، ایک دن حضرت الاستاذ مولانا مفتی محمد ظفیر الدین مفتاحی (جن کے پاس میں نے فتویٰ نویسی کی مشق کی تھی) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ایک سوالنامہ میری طرف بڑھاتے ہوئے فرمایا کہ اس کا جواب تیار کرنا ہے۔۔۔۔۔۔ حضرت مفتی صاحب مجھ سے اس طرح کے کام لیتے رہتے تھے ، ایک بار علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کا پرچہ سوالات مجھ سے بنوایا، وہ تصوف واخلاق کی مشہور کتاب “الرسالة القشیریۃ کا پرچہ تھا، جو وہاں شعبہ دینیات میں داخل تھی، میرے لئے یہ بالکل نامانوس اور اجنبی کتاب تھی، لیکن میں نے حکم کی تعمیل کی اور اللہ پاک نے مشکل آسان فرمادی۔۔۔ اسی طرح مفتی صاحب کے ترتیب فتاویٰ کے کام میں بھی کچھ دنوں میں شریک رہا تھا۔

پہلا فقہی مقاله

میں نے سوالنامہ پر نظر ڈالی تو یہ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کی طرف سے آیا تھا، اور مشہور و معروف عالم وفقیہ حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی اس کے داعی اور روح رواں تھے ، جن کی زیارت سے اس وقت تک میں محروم تھا، ان کا ایک عالمی فقہی سیمینار چند ماہ قبل دہلی میں ہو چکا تھا، جس کی گونج پورے ملک میں سنائی دے رہی تھی ، ہندستان میں وہ اپنی نوعیت کا پہلا سیمینار تھا، خاص طور پر علماء کے حلقہ میں یہ ایک حیرت انگیز قدم تھا، اپنے اغراض و اہداف کے اعتبار سے بھی ، اور حسن انتظام اور معیار کے لحاظ سے بھی ،۔۔۔۔ اس سے ایک سال قبل قاضی صاحب کے تحقیقی و دستاویزی مجلہ بحث و نظر کی بھی شہرت سنی تھی ، اور غالباً مفتی صاحب کے پاس ہی اس کا کوئی شمارہ دیکھنے کا اتفاق ہو ا تھا، یہ بھی اپنی نوعیت کا ہندستان میں واحد رسالہ تھا جو اپنے و تحقیقی مضامین اور حسن طباعت کے لحاظ سے بلند معیار کا حامل تھا، اور بظاہر خشک علمی موضوعات کے باوجود ہزاروں اہل علم اس کے خریدار تھے ، اور کہنا چاہئے کہ اسی رسالہ نے اولاً فقہ اکیڈمی اور فقہی سیمینار کی زمین تیار کی۔۔۔ غرض حضرت قاضی صاحب کی شہرت و عظمت سے میرے کان آشنا تھے ، اور ان سے ملنے کا اشتیاق بھی تھا، سیمینار کی اطلاع ملی تو یہ آتش شوق بھڑک اٹھی ، اور میں حضرت مفتی صاحب کے حکم کی تعمیل کے لئے راضی ہو گیا، سوالنامہ کئی موضوعات پر مشتمل تھا، کرنسی نوٹ کا مسئلہ مجھے دیا گیا، یہ موضوع میرے لئے بالکل نیا تھا، شعبہ افتا کی طالب علمی کے دوران کبھی اس مسئلہ کو پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا، اور نہ یہ ہنر معلوم تھا کہ نئے مسئلہ کو قدیم کتب فقہ سے کیسے حل کیا جاتا ہے ؟ قدیم کتب فقہ میں بھی میرا امبلغ علمی شامی اور عالمگیری سے آگے نہیں تھا، سوالنامہ کے اندر موجودہ معاشی پس منظر میں جس طرح نئے گوشے ابھارے گئے تھے ، اس غریب طالب علم کو ان کی ہوا بھی نہیں لگی تھی، سوالنامہ کو شوق کے ہاتھوں مفتی صاحب سے لے عالمی تو لیا تھا، لیکن اندر کی مشکلات کا اندازہ نہیں تھا، علم و تحقیق کی اس وادی میں قدم رکھنا آسان نہیں تھا۔

یہ قدم قدم بلائیں یہ سواد کوئے جاناں

وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہو پیاری

لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری، اور تدریس کے علاوہ باقی سارا وقت کتب خانہ میں گزار کر صرف پندرہ دن کے اندر میں نے اپنا پہلا فقہی مقالہ تیار کر لیا ، جس کا عنوان تھا: “کرنسی نوٹ کا شرعی حکم “مفتی صاحب نے تو مجھے صرف حوالے اور مواد نکالنے اور مختصر جواب لکھنے کا حکم دیا تھا، کوئی باقاعدہ مقالہ لکھنے کی ذمہ داری نہیں دی تھی، لیکن میرے شوق کے قدم رکے نہیں اور منزل پر پہونچ کر ہی میں نے دم لیا۔ تمہاری راہ میں چلنے کی ہے خوشی ایسی کہ ساتھ نقش قدم بھی اچھل اچھل کے چلے میں نے مقالہ مفتی صاحب کو پیش کیا تو وہ بے حد مسرور ہوئے، پھر میں نے وہ مقالہ بغیر کسی پیشگی اجازت و اطلاع کے دبلی اکیڈمی کے دفتر بھی بھیج دیا، یہی مقالہ بعد میں حضرت قاضی صاحب سے تعارف کا ذریعہ بنا۔

فقہی سیمینار میں پہلی شرکت

جب سیمینار کے دن قریب آئے تو حضرت مفتی صاحب نے خود ہی بحیثیت رفیق سفر ساتھ چلنے کی پیش کش فرمائی ، اس طرح یہ فقیر بے نوا پہلی بار خادمانہ حیثیت سے دوسرے فقہی سیمینار (منعقدہ دہلی ) میں شریک ہوا، اور قاضی صاحب کی پہلی زیارت اسی موقعہ پر نصیب ہوئی اور ان کے بے پناہ علم و بصیرت ، بے نظیر قوت استدلال، اور شفقت و اخلاق کریمانہ سے بے حد متاثر ہوا، میر امقالہ بھی پروگرام میں شامل تھا اور مفتی صاحب کو یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی تھی ، اور گو کہ میں پیشگی دعوت کے بغیر حاضر ہوا تھا، لیکن دیگر

یہ بھی پڑھیں: درجہ سابعہ اردو شروحات

اجتہاد اور تقلید کی بے مثال تحقیق

اجتہاد اور تقلید کی بے مثال تحقیق

تالیف: مولانا محمد ادریس کاندہلوی

Ijtihad aur Taqleed ki Be Misal Tahqiq

By Maulana Muhammad Idrees Kandhalvi

Read Online

Download (2MB)

Link 1      Link 2

 

 

رسالہ اہل السنت و الجماعت

رسالہ اہل السنت و الجماعت

اھل سنت والجماعت کا تعارف اور عقائد

Risala Ahlus Sunnat wal Jamaat

By Allama Syed Sulaiman Nadwi

Read Online

Download (1MB)

Link 1      Link 2

الیواقیت الغالیۃ

الیواقیت الغالیۃ

اليواقيت الغالية فى تحقيق و تخريج الاحاديث العالية

احادیث نبویہ کی تحقیق و تخریج اور نادر مباحث علمیہ کا قیمتی مجموعہ

از مولانا محمد یونس جونپوری

Al Yawaqit ul Ghaliyah

By Maulana Muhammad Yunus Jaunpuri

Read Online

Vol 01      Vol 02      Vol 03

 Vol 04

Download Link 1

Vol 01 (6MB)     Vol 02 (7MB)

Vol 03 (4MB)     Vol 04 (4MB)

Download Link 2

Vol 01 (6MB)     Vol 02 (7MB)

Vol 03 (4MB)     Vol 04 (4MB)

 

 

نظر طحاوی

نظر طحاوی

تنقیح اللآلی فی تحقیق نظر الطحاوی – اختلافی مسائل پر نظر طحاوی

 

Nazar e Tahawi

By Maulana Muhammad Shafiq ur Rehman

Read Online

Download (4MB)

Link 1     Link 2

 

 

عقل اور مذہب اسلام

عقل اور مذہب اسلام

عقل اور مذہب اسلام

جس میں مذہب اسلام کا عقل سلیم کے مطابق ہونا واضح اور روشن دلائل سے بیان کیا گیا ہے۔

تالیف: مولانا محمد ادریس کاندہلوی

پیش لفظ

شيخ الهند اكيدني

حضرت مولانامفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب دامت برکاتہم مہتمم دارالعلوم دیوبند

علوم دینیہ کی تعلیم واشاعت علمائے کرام کی اہم ذمہ داری ہے ؛ علماء اپنی اس ذمہ داری کی ادائیگی میں ہمیشہ سرگرم رہے ہیں، دار العلوم دیو بند کے قیام کے مقاصد میں تعلیم و تربیت اور درس و تدریس کے ساتھ ساتھ زبان و قلم کے ذریعہ علوم دینیہ اور اسلامی تعلیمات کی اشاعت کو بھی اہمیت حاصل رہی ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ دارالعلوم کے فضلاء نے دینی و اسلامی موضوعات پر حالات کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے قرآن وحدیث، فقہ و تفسیر، سیرت و عقائد، تاریخ و تذکرہ اور تصوف و سلوک وغیرہ ہر ہر عنوان پر وقیع اور بصیرت افروز تصانیف تیار کی ہیں، چناں چہ دار العلوم دیو بند میں معیاری علمی لٹریچر کی نشر و اشاعت اور اکابر کے علوم و افکار کی تحقیق و ترویج کے مقصد سے شیخ الہندا اکیڈمی کے نام سے ایک شعبہ قائم کیا گیا، جس میں اب تک ساٹھ سے زائد معیاری علمی وتحقیقی کتا بیں شائع کی جا چکی ہیں۔ سال گذشتہ ہمارے ملک ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن ہوا، تو تعلیمی نظام کے تعطل کی وجہ سے فیصلہ لیا گیا کہ دارالعلوم کے اساتذہ سے حسب ذوق و صلاحیت مختلف علمی کام لیے جائیں، اسی مقصد سے چند اساتذہ کرام پر مشتمل تحقیق و تالیف و ترجمہ کمیٹی تشکیل دی گئی۔ کمیٹی نے غور و خوض اور صلاح ومشورہ کے بعد مختلف قدیم کتابوں کی نئے انداز پر ترتیب تسہیل و تحقیق، اور حسب ضرورت نئے عناوین پر لٹریچر کی تیاری کا نظام بنایا، اس کے بعد اساتذہ کرام نے حسب ذوق کاموں کا انتخاب کیا؛ چنانچہ بعض اساتذہ نے کو قدیم کتابوں کی تحقیق و تسہیل کا کام کیا اور بعض نے حالات حاضرہ کے تقاضوں سے ہم آہنگ اور معاصر ذہن کے شکوک و شبہات کا ازالہ کرنے کے مقصد سے متعدد جدید عناوین پر لٹریچر تیار کرنے کا بیڑا اٹھایا، اس طرح تقریبا چالیس نئے عناوین پر کام ہوا جن میں ضروری اور حساس عنوانات بھی شامل ہیں، اسی کے ساتھ اکا بر علمائے دیوبند کی تقریبا نہیں کتابوں کو تسہیل و تحقیق کر کے اشاعت کرنے کا منصوبہ زیر عمل آیا۔

زیر نظر کتاب عقل اور مذہب اسلام مؤلفہ حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلوی رحمہ اللہ علیہ ، جس پر مولانا عبد الحمید یوسف قاسمی نے سہیل و تحقیق کا کام کیا ہے؟ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، راقم نے اس پر نظر ثانی کرلی ہے، ضروری کاروائی اور نظر ثانی کے مراحل سے گذرنے کے بعد اس کو شیخ الہندا کیڈمی سے شائع کیا جا رہا ہے۔ اس موقع سے حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری رحمہ اللہ معاون مہتم دارالعلوم دیوبند کا ذکر کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے، موصوف تحقیق و تالیف کمیٹی کے نگراں تھے اور کمیٹی کے امور سے دلچسپی رکھتے تھے، افسوس اس سلسلہ کی کوئی بھی کاوش منظر عام پر آنے سے قبل ہی جوار رحمت میں چلے گئے، اللہ تعالیٰ مغفرت فرما کر درجات بلند فرمائے ۔ آمین اخیر میں تحقیق و تألیف کمیٹی کے اراکین اور کمیٹی کے کنویز جناب مولانا عمران اللہ صاحب استاذ دار العلوم دیو بند کا ذکر بھی ضروری ہے کہ ان کی دلچسپی اور محنت سے یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچا اس کے لیے وہ شکریہ کے مستحق ہیں۔ جزاھم اللہ خیر الجزاء! اللہ تعالی ان کوششوں کو قبول فرما ئیں اور امت مسلمہ کے لیے اس کتاب کو مفید بنائیں ۔ آمین

و آخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين !

ابوالقاسم نعمانی مہتمم دارالعلوم دیوبند

۲۲ ذیقعده ۱۴۴۲ ھ = ۴ جولائی ۲۰۲۱ء

حرف اوّلیں

شيخ الهند اكيڈمى

اسلام ایک دین کامل اور مکمل دستور حیات ہے، انسانی زندگی سے متعلق اس میں واضح ہدایات و تعلیمات موجود ہیں قیامت تک دنیا میں رونما ہونے والے انقلابات، انسانی زندگی کے مسائل، پیچیدگیوں اور دشواریوں کوحل کرنے کی اس میں صلاحیت پائی جاتی ہے اسلامی تعلیمات کی انصاف پسندی، مساوات و اعتدال اور معقولیت کی وجہ سے اسلام اپنے اندر بے پناہ کشش رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ بہت تھوڑی مدت میں اس نے غیر معمولی انقلاب بر پا کر ڈالا، کہ انسانی جسم تو اس کے مطیع و پابند ہوئے ہی قلوب واذہان بھی حقانیت

اسلام کو تسلیم کیے بغیر نہ رہ سکے اور پوری دنیا میں اسلام کے زمزمے بلند ہونے لگے۔ پھر جب دنیا میں فلسفہ اور عقل پسندی کا زور بڑھا، ہر چیز اور ہر عمل میں عقل کے ذریعہ ترجیح متعین کرنے والا طبقہ ظاہر ہوا تو اس طبقہ نے اسلام کے احکام و عبادات میں بھی عقل کی میزان قائم کرنی شروع کر دی، وہ احکام اسلام کو عقل پر پر کھتے ، اگر کوئی حکم عقل کے دائرہ میں ہوتا اس کی حکمت سمجھ میں آتی تو اس کو تسلیم کرتے ورنہ ترک کر دیتے ، یہ کتنی عجیب بات تھی کہ بند نے اپنی ناقص عقل و فہم سے خدائی احکام کو پرکھنے لگیں یہ انداز فکر اور نظریہ ہر زمانے میں کسی نہ کسی تعداد میں باقی رہا، جس سے سادہ لوح عوام کے ذہنوں میں شکوک وشبہات پیدا ہوتے، انھیں حالات کے پیش نظر علماء نے اس موضوع پر قلم اٹھایا اور متعدد کتابیں تصنیف کیں، علمائے متقدمین میں سے حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی علیہ الرحمہ نے اس سلسلہ میں قابل قدر خدمات انجام دیں۔

توازن و اعتدال اسلام کی خوبی ہے اور اس سلسلے میں اعتدال ہی ملحوظ رکھا گیا، شریعت کے عام ظاہری احکام کے متعلق عقل کے استعمال سے منع نہیں کیا گیا؛ بلکہ قرآن ت سے فقہی احکام عقل کو استعمال کر کے ہی ترتیب دیئے گئے ہیں ، لیکن جن احکام و عقائد کی بنیاد کو جاننے سے عقل عاجز ہو جاتی ہے اور ان تک عقل کی رسائی ممکن نہیں ہوتی، تو ان کو عقل کے ذریعہ نہیں سمجھا جاسکتا، ان کو خالق کا ئنات نے اپنے مخصوص بندوں کے ذریعہ انسانوں تک پہنچایا، ایسے امور میں عقل کے استعمال سے منع کیا گیا ہے، ان پر اعتمادو اعتبار کے لیے قرآن و احادیث میں اُن کا مذکور ہونا کافی ہے، پھر ہر عقل متفاوت بھی ہوتی ہے لہذا اگر کسی کی سمجھ میں کسی حکم کی حکمت نہ آئے اور اس بنا پر وہ اس کو ماننے سے انکار کر دے تو ایسے شخص کو احمق اور دیوانہ ہی کہا جائے گا؛ کیوں کہ ہر حکم کی حکمت کا ہر انسان کی عقل و فہم میں آنا ضروری نہیں ؛ اس لیے ہر انسان کو مذہب اسلام کے عقائد واحکام میں عقلی گھوڑے دوڑانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اس سلسلہ میں درست اور متعدل طریق سمجھانے کے لیے زیر نظر کتاب عقل اور مذہب اسلام تحریر کی گئی ہے، حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلوی رحمہ اللہ نے عقل اور نقل کے تعارض کی صورتیں، عقل کی حقیقت اور اس کی تعریف، عقل کا مقام، عقل اور علم میں فرق ، عقل، روح اور نفس میں فرق، عقل کامل، مذہب سے نفرت کی وجہ ، شریعت کا کوئی مسئلہ عقل کے خلاف نہیں، نبوت کی ضرورت، لامذہبوں کا مذہب، عقل سلیم کا فتوی جیسے عناوین پر مشتمل یہ کتاب ترتیب دی جس میں اسلام کا عقل سلیم سے مطابق ہونا واضح اور روشن دلائل سے ثابت کیا گیا ہے، عنوان مذکورہ بالا پر یہ کتاب آسان اور عمدہ پیرائے میں ہونے کی وجہ سے کافی مقبول ہوئی۔ سال گذشتہ جب دار العلوم میں تعلیمی نظام موقوف ہوا اور کرونا بیماری کے سبب ساری سرگرمیاں معطل ہوگئیں، تو ارباب انتظام نے تحریری تصنیفی عمل کو جاری رکھنے کے لیے تحقیق و تالیف کمیٹی تشکیل دی جس کی ذمہ داری احقر کے کاندھوں پر ڈالی گئی، اولا کیٹی نے کام کا خاکہ تیار کر کے اسا تذہ کرام کی خدمت میں ارسال کیا، اس موقع پر جناب مولانا عبدالحمید یوسف قاسمی استاذ دارالعلوم دیوبند نے کتاب مذکور عقل اور مذہب اسلام کرمنتخب کیا، اور پوری دلچپسی محنت و توجہ کے ساتھ حواشی و عناوین کے اضافے ، رموز املا کی رعایت کے ساتھ تحقیق و تسہیل کام مکمل کر دیا، کمیٹی کے مشورے سے حضرت مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی صاحب مہتم دار العلوم دیو بند نے نظر ثانی فرمائی، حضرت مہتمم صاحب کی نظر ثانی اور کمیٹی کی کارروائی کے بعد اب یہ کتاب شیخ الہندا کیڈمی سے شائع کی جارہی ہے۔ ابھی تحقیق و تالیف کمیٹی کے تحت جاری تصنیفی وتحقیقی عمل کے نتائج منظر عام پر نہیں آسکے تھے بعض کتابیں اور رسائل تکمیل و نظر ثانی کے بعد کتابت و طباعت کے مرحلے میں ہی تھیں کہ استاذ محترم اور تحقیق و تالیف کمیٹی کے نگراں حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے تحقیق و تالیف کمیٹی کے امور سے حضرت والا کو خاصی دلچسپی تھی ، اس کاوش کے منظر عام پر آنے سے حضرت والا کو بہت خوشی ہوتی اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرمائے۔ آمین اس موقع سے حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب مہتم دارالعلوم دیوبند، اور اراکین کمیٹی حضرت مولانامحمد سلمان صاحب بجنوری، حضرت مولانامحمد ساجد صاحب ہر دوئی، حضرت مولانا عارف جمیل صاحب مبارکپوری اساتذہ دارالعلوم دیوبند کی خدمت میں کلماتِ تشکر پیش ہیں اور ساتھ ہی مولانا عبدالحمید یوسف قاسمی کا شکر یہ ادا کرنا ضروری ہے کہ موصوف نے تسہیل و تحشیہ سے اس کتاب کو مزین کیا۔ جزاهم الله احسن الجزاء اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس سلسلہ کو خیر کا ذریعہ بنائے اور اس کتاب کو نافع بنائے ۔ آمین

عمران اللہ قاسمی

کنویز تحقیق و تالیف کمیٹی ونگراں شیخ الہند اکیڈمی دارالعلوم دیوبند

۲۴ ذیقعده ۱۴۴۲ ھ = ۶ جولائی ۲۰۲۱ء

Aqal Aur Mazhab e Islam

By Maulana Muhammad Idrees Kandhalvi

Read Online

 

Download (2MB)

Link 1      Link 2

 

 

یونانی ٹریس میٹلز

یونانی ٹریس میٹلز

حکیم قاضی ایم اے خالد

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ن وَالْقَلَمِ وَ مَا يَسْطُرُونَ

جدید میڈیکل سائنس میں انسانی جسم کے لیے یونانی ٹریس میٹلز کی افادیت انیسویں صدی میں بیچانی گئی اور ان کو انسانی جسم کے لیے جزول ینفک قرار دیا گیا۔

جبکہ ٹریس میٹلز کی افادیت کا اندازہ اور اس کا استعمال طب یونانی طریقہ علاج میں صدیوں سے ہوتا چلا آرہا ہے ۔ اٹامک ابزار پیشن سپیکٹرم کی ایجاد نے باندہ تھیں اور جب میں انقلاب بر پا کر دیا۔

یونانی ٹریس میٹلز

طب یونانی میں ٹریس میٹلز کو معدنی کشتہ جات کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ انسانی جسم میں زمیں میلہ کی انتہائی قلیل مقدار کی ضرورت ہوتی ہے۔ یٹریس میٹلز جن کو قلیل دھاتی مرکبات کے نام سے بھی منسوب کیا جا سکتا ہے، حیاتین سے بھی زیادہ اہمیت کے حامل ہیں ۔ یہ قبیل دھاتی مرکبات انسانی جسم میں تیار نہیں ہوتے بلکہ ان کا تمام تر انحصار بیرونی ذرائع پر ہوتا ہے۔ مثلاً خوراک مشروبات ادویاتی مرکبات وغیر ، میلوں دھاتی مرکبات کو ٹریس میٹلز کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے اور ان کی تعداد وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ رہی ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا‘۔ (فاطر ا: ۳) یہ اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ زمین میں پائے جانے والے تمام معدنی مرکبات انسانی جسم کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ ان کی مقدار خواہ کم ہو یازیادہ ، انسانی جسم کی نشو ونما ان کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ بعض رھائی مرکبات مثلا کسی شیم اور فاسفورس دانتوں اور ہڈیوں کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ کچھ دھاتی مرکبات عمل انگیز کے طور پر انسانی جسم میں میٹا بولک عوامل میں کام کرتے ہیں۔ کچھ دھاتی مرکبات جراثیم کش کام سر انجام دیتے ہیں، جیسے سونا، چاندی وغیرہ ۔ بعض مائع کے توازن کو برقرار رکھتے ہیں جیسے پوٹاشیم میگنیشیم، سوڈیم وغیرہ۔

انسانی جسم میں اوسطاسات ہونھ دھاتی مرکبات پائے جاتے ہیں۔ جدید تحقیقات کی روشنی میں قلیل دھاتی مرکبات کی اہمیت دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہے ۔ یہ قلیل دھاتی مرکبات بھی اتنی ہی اہمیت کے حامل ہیں جتنا کہ دوسرے مرکبات ۔ ان کی مقدار کوئی اہمیت نہیں رکھتی اگر جسم کو کسی دھاتی مرکب کی انتہائی قلیل مقدار کی ضرورت ہو اور وہ میسر نہ آئے تو انسانی جسم اپنا نارمل کام سر انجام نہیں دے سکتا۔ لہذا ان کی بہت تھوڑی مقدار بھی بہت بڑی اہمیت کی حامل ہو سکتی ہے۔

unani trace metals

Read Online

Download PDF

پورن ایڈکشن

پورن ایڈکشن (خطرات، اسباب، چھٹکارا)

عرفان احمد

تنبیه

یہ کتاب 18 برس یا اس سے زیادہ عمر کے افراد کے لیے ہے۔ اس میں کسی کے ذاتی اور انفرادی سوالات کا جواب نہیں دیا گیا ہے اور نہ یہ کتاب کسی تھیراپی (علاج) کا متبادل ہے۔ اس کتاب کا مقصد پورن ایڈکشن سے چھٹکارے کے لیے ان نو جوانوں اور پختہ کار افراد کی رہنمائی کرتا ہے جو پورن کے تباہ کن اثرات سے بچنا اور پورن سے آزاد زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ یہ کتاب ان والدین کے لیے بھی ایک اچھی گائیڈ بک ثابت ہو سکتی ہے جو اپنے بچوں کو پورن کے سیلاب سے محفوظ رکھنے کے لیے موثر لائحہ عمل کی تلاش میں ہیں۔

عرض ناشر

آپ سوشل میڈیا اٹھالیجیے، آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ اردو کی مختلف ویب سائٹس پر وہی مضامین اور بلاگز زیادہ پڑھے جاتے ہیں جن میں سیکس کا تذکرہ ہو: خواہ وہ اجتماعی زیادتی کا معاملہ ہو یا لڑکی کے اپنے آشنا کے ساتھ گھر سے بھاگنے کا قصہ، مرکز توجہ Sex ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ناظرین و قارئین کا ذوق ہے۔ بلاگز لکھنے والے اور ویڈیوز بنانے والے یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ ہم اگر اپنے مواد میں سیکس کا تڑکا لگا ئیں گے تو زیادہ لوگ آئیں گے اور ہمیں زیادہ پیسہ ملے گا۔

دیگر نشوں مثلاً ہیروئن، آئس، افیم، الکحل وغیرہ کی طرح پورن ایڈکشن بھی ایک نشہ ہے۔ جیسے دیگر چیزوں کی لت آدمی کو لگ جاتی ہے، ایسے ہی پورن (Porn) کی لت بھی لگ جاتی ہے اور وہ شخص Porn addiction میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ چنانچہ جیسے دیگر نشوں میں مبتلا افراد قابل رحم ہیں کہ ان کا ہاتھ پکڑ کر ان کا علاج کرایا اور انہیں اس لت سے چھٹکارا دلایا جائے، اسی طرح پورن ایڈکشن میں مبتلا لوگ بھی رحم اور توجہ کے طالب ہیں کہ سمجھ دار اور باشعور افراد اس جانب آئیں اور ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اس لت سے دور کر دیں۔

پورن ایڈکشن کوئی معمولی لت نہیں ؛ اس سے دین اور دنیا دونوں تباہ ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پورن ایڈکشن کی وجہ کیا ہے؟ غور کیجیے کہ چھ سات برس کے بچے کو یہ لت نہیں ہوگی، کیوں کہ اس کے اندر یہ خواہش اور طلب ہی نہیں ۔ لہذا، اسے یہ بیماری نہیں ہوگی۔ دراصل جنس کی بھوک (Sexual desire) بالکل ایسی ہی ایک بھوک ہے جیسے جسمانی بھوک ہے۔ ہمیں جب بھوک لگتی ہے تو ہمارے اندر کھانا کھانے کی طلب پیدا ہوتی ہے اور ہم پوری کوشش کرتے ہیں کہ جلد از جلد یہ بھوک مٹائی جائے۔ ایسے ہی انسان ایک عمر میں جنسی بھوک میں ایسا مبتلا ہوتا ہے کہ اسے کوئی بیان، کوئی خوف کوئی تحریر متاثر نہیں کر پاتی۔ ہر شئے اس کے لیے بے اثر ہو جاتی ہے۔

پورن ایڈکشن

اصل سوال یہ نہیں کہ کون اس کا ذمے دار ہے، قابل غور پہلو یہ ہے کہ اس سے نمٹا کیسے جائے؟ کیوں کہ پورن ایک سونامی کی طرح پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ یہ صرف مسلم معاشرے کا مسئلہ ہی نہیں، مغرب بھی اس سے شدید متاثر ہے۔ بیماری جو بھی ہو، اس کے علاج کا پہلا قدم یہ ہے کہ اسے بیماری تسلیم کیا جائے۔ اس کے بعد ، اگلا کام اس بیماری کا علاج کرنا ہے۔ مغرب میں اس موضوع پر کئی ادارے غیر تجارتی اور غیر کاروباری بنیادوں پر کام کر رہے ہیں۔ مختلف دورانیوں کے کورسز کروائے جاتے ہیں۔ ماہرین نفسیات، کاونسلرز اور کوچز انفرادی طور پر پورن ایڈکشن میں مبتلا افراد کی ماہرانہ رہنمائی کرتے ہیں۔

پاکستانی معاشرے میں بھی بدلت عفریت کی طرح پھیل چکی ہے۔ کوئی قانونی یا اخلاقی پابندی بظاہر اس کے آگے بند باندھنے میں کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ اس پر مستزاد، ہم اس موضوع پر بات کرنے کوبھی تیار نہیں! بھلا بیماری کا علاج اس پر بات کیے بغیر، اس پر غور کیے بغیر کیسے ممکن ہے؟ اسلام چونکہ مکمل ضابطہ حیات پیش کرتا ہے، اس لیے آپ دیکھیں گے کہ اسلام میں اگر عبادات کے احکام وضاحت سے موجود ہیں تو سیکس کی ضرورت پوری کرنے کے لیے بھی تفصیلی اصول وضوابط بیان کر دیئے گئے ہیں، حتی کہ میاں بیوی کے درمیان پوشیدہ تعلق کی چھوٹی چھوٹی باتیں تک بتائی گئی ہیں اور ہر موقعے کی دعاؤں کی بھی تعلیم دی گئی ہے۔

اس کتاب کا بنیادی مقصد پورن ایڈکشن کے بڑھتے ہوئے مسئلے پر بات کرنا، اسے سنجیدہ اور عقلی بنیادوں پر سمجھنا، اور خود کو اور اپنی نسلوں کو اس سونامی سے بچانے کے لیے عملی تدابیر بتاتا ہے۔

جو لوگ پورن کے چنگل میں پھنے ہوئے ہیں ۔ ان کی عمر چاہے کچھ بھی ہو ان کے لیے اس جال سے نکلنا آسان نہیں۔ بعض افراد کو اس میں کئی کئی سال لگ جاتے ہیں۔ لیکن، جولوگ پختہ عزم کے ساتھ پورن سے نجات کے لیے کام کرتے ہیں، اللہ کے فضل اور توفیق سے وہ اس سے مکمل نجات حاصل کر لیتے ہیں۔ آپ کی ذمے داری اس کتاب میں دی گئی معلومات کو پڑھنا اور ان تدابیر پر عمل کرنا ہے۔ پورن کی لت (Porn Addiction) اس وقت پوری دنیا میں اتنی عام ہو چکی ہے کہ فطری شرم و جھجک کے باوجود میں نے اس حساس لیکن اہم موضوع پر کام کرنے اور گفتگو پہلی کیشنز سے یہ کتاب شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں عرفان بھائی (سید عرفان احمد ) کا بے حد شکر گزار ہوں کہ انہوں نے پورن ایڈکشن کے موضوع پر تحقیق اور اس کتاب کی تصنیف کا بیڑا اٹھایا؟ اور میرے اس فیصلے کو عملی جامہ پہنتا یا۔ مجھے امید ہے کہ یہ کتاب اس موضوع پر اردو داں طبقے کے لیے بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوگی ، اور وہ اسے دور جدید کی اس خطرناک بیماری سے چھٹکارا پانے میں مفید پائیں گے۔

ذیشان الحسن عثمانی

یکم اگست 2023 ء نیویارک، امریکہ

Porn Addiction (Dangers, Causes, Remedy)

Irfan Ahmed

Read Online

Download PDF

جست یعنی زنک کے مرکبات اور انسانی صحت

جست یعنی زنک کے مرکبات اور انسانی صحت

ڈاکٹر خال محمود جنجوعہ

سائنسی دنیا میں انسانی جسم کے لیے ٹریس مٹیل صدی میں پہچانی گئی اور ان کو انسانی جسم کے لیے جزو لا ینفک قرار دیا گیا۔ آئرن، کیلشیم آیوڈین کی افادیت صدیوں پہلے جانی جاچکی تھی۔ ٹیس میٹل کی افادیت کا اندازہ اور اس کا استعمال طب اسلامی اور مابعد ہومیو پیتھک طریقہ علاج میں صدیوں سے ہو رہا ہے ۔ اٹامک ابزار پیشن سپیکٹرم ABSORPTION SPECTRUM ATOMIC کی ایجاد نے بائیو کیمیکل BIOCHEMICAL اور طب میں انقلاب برپا کر دیا ۔ طب اسلامی میں ٹریس میٹلز کو کشتہ جات کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے ۔ انسانی جسم میں ٹریس میٹلز کی انتہائی قلیل مقدار کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ٹریس میٹل جن کو قلیل دھاتی مرکبات کے نام سے بھی منسوب کیا جاسکتا ہے، حیاتین سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ یہ قلیل دهانی مرکبات انسانی جسم میں تیار نہیں ہوتے بلکہ ان کا تمام تر انحصار بیرونی ذرائع پر ہوتا ہے۔ مثلا خوراک مشروبات و غیره ، تقریباً بیس دھاتی مرکبات کو ٹریس میٹل کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے اور ان کی تعداد وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ رہی ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا اور یہ اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ زمین میں پائے جانے والے تمام معدنی مرکبات انسانی جسم کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ ان کی مقدار خواہ کم ہو یا زیادہ ، انسانی جسم کی نشو ونما ان کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ بعض دھاتی مرکبات مثلاً کیلشیم اور فاسفورس دانتوں اور ہڈیوں کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ کچھ دھاتی مرکبات عمل انگیز کے طور پر انسانی جسم میں میٹا بولک METABOLIC عوامل میں کام کرتے ہیں۔ کچھ دھاتی مرکبات جراثیم کش کام سر انجام دیتے ہیں جیسے سونا، چاندی وغیرہ ۔ بعض مائع کے توازن کو برقرار رکھتے ہیں جیسے پوٹاشیم، میگنیشیم سوڈیم وغیرہ۔ انسانی جسم میں اوسطاسات یونڈ دھائی مرکبات پائے جاتے ہیں۔ تحقیق کی روشنی میں قلیل دھاتی مرکبات کی اہمیت دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ یہ قلیل دھاتی مرکبات بھی اتنی ہی اہمیت کے حامل ہیں جتنا کہ دوسرے مرکبات ۔ ان کی مقدار کوئی اہمیت نہیں رکھتی اگر جسم کو کسی دھاتی مرتب کی انتہائی قلیل مقدار کی ضرورت ہو اور وہ میسر نہ آئے تو انسانی جسم اپنا نارمل کام سرانجام نہیں دے سکتا۔ لہذا ان کی بہت تھوڑی مقدار بھی بہت بڑی اہمیت کی حامل ہوسکتی ہے۔ ہومیو پیتھیک کسٹم اسی اصول پر مبنی ہے ۔ آج کل سائنسی دنیا میں ٹریس سٹیل کی اہمیت پر بہت زیادہ تحقیق کا کام ہو رہا ہے اور آئے دن ان کی اہمیت انسانی جسم کے لیے بڑھتی

Zinc Ke Murakbat Aur Insani Sehat

Read Online

Download PDF

اصول طب

قبض کوئی مرض نہیں

قبض کوئی مرض نہیں

قبض کوئی بیماری نہیں

حکیم محمد یاسین چاولہ

پیش لفظ

فرنگی ظاہر طور پر تو اس سر زمین پاک کو خیر باد کہ گیا مگرحقیقت میں اس نے سونے کی اس چڑیا مینی سرزمین پاک کو اپنے نفس ظلم و استبداد سے ذہنی طور پر آزاد نہیں کیا۔ جس کا زندہ ثبوت ہمارے وطن عزیز کے تمام شعبہ جات میں فریگیا نہ نظام کی اجارہ داری ہے۔

سرزمین پاک کے اذہان کو اس قدر اور اس انداز سے مفلوج کیا گیا ہے۔ کہ یہ بیچارے اپنی پستی و گمراہی کے حقیقی اسباب و محرکات کو جانتے ہوئے بھی اپنے حقیقی اور شافی علاج سے چشم پوشی کرتے ہوئے قومی سکون اور عارضی علاج کے لیے برٹش میڈ اور امریکہ میڈ ادویات و نظریات کو استعمال کرنے کے عادی ہوچکے ہیں صبح و شام اپنے اسی پیرو مرشد دفتری کی حذاقت کا دم بھرتے رہنا ان کا معمول زندگی بن چکا ہے ۔ اگر ان کے سینے کوئی اپنا بھائی کام کی بات کیسے تو وہ جاہل اور بیوقوف ( FOOLiSH) جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے اور اس کی بات غیر سائنسی یعینی scity جیسے الفاظ کی نذر ہو جاتی ہے۔ عجب بات ہے کہ تمام دنیا میں عقلمند اور قسم قسم کے لوگ صرف اور صرف برطانیہ اور امریکہ میں ہی پیدا ہوتے ہیں عقل کل کا منبع ہی وہ لوگ ہیں۔ جو بات وہ فرمائیں وہ سائنٹیفک (سائنسی ، ہوتی ہے ۔

غذا کس طرح ہضم ہوتی ہے

جو غذا ہم کھاتے ہیں اس کا ہضم بندہ سے شروع ہوتا ہے ۔ لعاب دہن منہ اور دانتوں کی حرکت و دباؤ غذا کی شکل و کیفیات کو بدل کر ہضم کرنے کی ابتدا کر دیتے ہیں۔ جب غذا معدہ میں چلی جاتی ہے تو حسب ضرورت اس میں رطوبت معدی اپنا اثر کرکے اس کو ایک خاص قسم کا کیمیاوی محلول بنا دیتی ہے اور اس کا اکثر حصہ ہضم ہو کر خون میں شامل ہو جاتا ہے اور باقی غذا چھوٹی آنتوں میں اتر جاتی ہے۔ بعد کے فعل وعمل میں تقریبا تین گھنٹے خرچ ہوتے ہیں پھر اس کی رطوبات اور لبلبہ کی رطوبت اور جبر کا صفرا باری باری وقتاً فوقتاً شامل ہو کر اس میں ہضم ہونے کی قوت پیدا کرتے ہیں اسے کیلوس کہتے ہیں اس فعل و عمل میں تقریباً چار پانچ گھنٹے صرف ہوتے ہیں۔ پھر یہ غذا بڑی آنتوں میں اتر جاتی ہے جہاں اس کے ہضم میں تقریبا چار پانچ گھنٹے صرف ہو جاتے ہیں پھر کہیں جا کر غذا مکمل طور پر جگر کے ذریعہ پختہ ہو کر خون میں شریک ہوتی ہے۔ تب خون بنتا ہے لیکن حقیقت میں غذا بھی پوپر سے طور پر ہضم نہیں ہوئی ظاہر میں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غذا ہضم ہو گئی ہے کیونکہ وہ خون بن جاتی ہے مگر طب قدیم میں صحیح معنوں میں غذا اس وقت تک ہضم نہیں ہوتی جب تک کہ وہ خون سے جدا ہو کرجسم کا حصہ نہ بن جائے غذا کوخون بنے تک اگر گیارہ بارہ گھنٹے

Qabaz koi Marz Nhi

Read Online

Download PDF

حقائق اسلام

حقائق اسلام

پیش لفظ

ہندوستان میں اسلام کے مختلف پہلووں پر اعتراضات کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔ لیکن اس میں شدت اس زمانے میں آئی جب انگریزوں نے انیسویں صدی عیسوی میں اپنا اقتدار جمالیا اور ان کے زیر سایہ عیسائی مشنریوں نے تبلیغ عیسائیت کی منصوبہ بند کوششیں شروع کیں۔ اسلام ان کے مقاصد کی تکمیل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ تھا ۔ چناں چہ انہوں نے اسلام پر عیسائیت کی بالا تری دکھانے کے لیے اس کے مختلف پہلووں پر جارحانہ حملے کیے اور اسلام کو ایک خوں آشام ، غیر متمدن اور فرسودہ مذہب ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ اس عہد میں مسلمان بڑے نازک دور سے گزر رہے تھے۔ اقتدار چھن جانے اور انگریزوں کے ہول ناک مظالم کی بنا پر وہ دوں ہمتی ، احساس کم تری اور مرعوبیت کا شکار تھے ۔ ان نازک حالات میں علمائے اسلام نے دفاع اسلام کی عظیم خدمت انجام دی اور حالات کی پروا کیے بغیر اسلام پر عیسائی مشنریوں کے اعتراضات کا منہ توڑ جواب دیا۔ انہوں نے ان سے زبانی بھی مناظرے کیے اور ان کی اشتعال انگیز تحریروں کا بھی زبر دست رد کیا۔

ادھر کچھ عرصہ سے اسلام کے خلاف اعتراضات میں پھر شدت پیدا ہوئی ہے۔ اس مرتبہ اس محاذ پر ان قوتوں نے پیش قدمی کی ہے جو ہندو تو کی علم بردار ہیں اور ملک پر صرف ہندو مذ ہب اور ہندو تہذیب کا غلبہ چاہتی ہیں۔ اپنی تمام تر کوشش کے باوجود وہ نہ تو مسلمانوں کو اپنے اندر جذب کر سکتی ہیں اور نہ اپنے مذہب اور اپنی تہذیب ہی کو اسلام اور اسلامی تہذیب کے مقابلے میں برتر ثابت کر سکی ہیں ۔ اس لیے اب انہوں نے یہ منصوبہ بتایا ہے کہ اسلام میں زبر دستی خامیاں نکالی جائیں اور پروپیگنڈا کے زور پر عوام کے سامنے اسے بھیانک شکل میں پیش کیا جائے ۔ حالات کا تقاضا ہے کہ ان اسلام مخالف منصوبوں کا مقابلہ کیا جائے ، اسلام پر کیے جانے والے اعتراضات اور شبہات کا جواب دیا جائے اور علمی بنیادوں پر اسلام کی حقانیت واضح کی جائے۔ اس کی ضرورت دو وجہوں سے ہے: ایک یہ کہ ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اسلام کی تصویر مسخ کرنے کی جو پیہم کوشش ہورہی ہیں ، اندیشہ ہے کہ غیر مسلموں کی اکثریت ان سے متاثر ہو جائے اور اسلام کا سنجیدہ اور غیر جانب دارانہ مطالعہ کرنے کے بجائے اسی عینک سے اسلام کو دیکھنے لگے جو ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اس کی نگاہوں پر چڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ خود مسلمانوں کی بڑی تعداد کا اسلام سے محض روایتی تعلق ہے اور وہ اسلام کے عقائد، عبادات اور تعلیمات کے بارے میں صحیح علم وفہم سے محروم ہے۔ وہ نہ صرف یہ کہ غیر مسلموں کی جانب سے اسلام پر کیسے جانے والے اعتراضات کا جواب دینے کے موقف میں نہیں ہیں، بلکہ بسا اوقات کم علمی کی بنا پر خود بھی انہی شکوک وشبہات میں مبتلا میں ہیں، بلکہ بنا پر وہ بھی ابھی مبتلا ہو جاتے ہیں اور انہی کی جیسی زبان بولنے لگتے ہیں۔ الحمد للہ امت کے باشعور طبقہ کو اس ضرورت کا احساس ہے اور اس میدان میں خاطر خواہ کام ہو رہا ہے۔ زیر نظر کتاب بھی اسی ضرورت کی تکمیل کی ایک حقیری کوشش ہے۔ اس میں چند ایسے اعتراضات کا انتخاب کیا گیا ہے جو عام طور سے غیر مسلموں کی جانب سے اٹھائے جاتے ہیں اور اسلام کے بنیادی مصادر و مآخذ کی روشنی میں ان کا جائزہ لینے اور اسلام کا صیح نقطہ نظر واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

میں شکر گزار ہوں صدر ادارہ تحقیق مولانا سید جلال الدین عمری مدظلہ العالی کا کہ انہی کی زیر نگرانی یہ کام انجام پایا ہے۔ موصوف نے اس کے بعض حصوں کو بالاستیعاب ملا حظہ کر کے اور بعض پر ایک نظر ڈال کر مفید مشوروں سے نوازا ہے۔ ان مشوروں کی روشنی میں کتاب کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ میں کارکنان اداره محترم مولانا سلطان احمد اصلاحی اور مولانا محمد جرجیس کریمی کا بھی شکر گزار ہوں کہ اس کی تالیف کے دوران وقتاً فوقتاً ان سے استفادہ اور رائے مشورہ کرتا رہا ہوں۔

حقائق اسلام

امید ہے کہ یہ کاوش ان حضرات کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگی جو دعوت کے میدان میں سرگرم عمل ہیں اور انہیں آئے دن غیر مسلموں کے مختلف سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح اس سے وہ حضرات بھی فائدہ اٹھا سکیں گے جو ان موضوعات پر اسلام کا نقطہ نظر سمجھنا چاہتے ہیں۔ اہلِ علم سے گزارش ہے کہ اس کی خامیوں لغزشوں اور غلطیوں سے مصنف کو ضرور مطلع فرمائیں، تا کہ آئندہ ان کی اصلاح کی جاسکے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اسے قبول کرے، اس کا فائدہ عام کرے اور اس کے اجر سے نوازے۔ انه نعم المولى ونعم المجيب

محمد رضی الاسلام

اداره تحقیق و تصدیف اسلامی علی گڑھ

۲ اگست ۲۰۰۱ء

Haqaiq e Islam

By Dr. Muhammad Raziul Islam Nadwi

 Raziul Islam Nadwi حقائق اسلام

Read Online

Download (4MB)

Link 1      Link 2