Saturday, April 27, 2024

حرمت مصاہرت

حرمت مصاہرت

حرمت مصاہرت

سسرالی اور دامادی رشتوں کے مفصل احکام اور ناجائز انتفاع کا مدلل حکم۔
مؤلف: مولانا مفتی سعید احمد پالنپور

دبیاچه

الْحَمدُ لِلَّهِ وَكَفَى وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفى

اما بعد حرمت مصاہرت کا مسئلہ خصوصا لمس و نظر اور حرام جماع سے ثبوت حرمت کا معاملہ دلائل کے اعتبار سے فقہ حنفی کا دقیق مسئلہ ہے ، دوسروں کے اعتراضات سے قطع نظر بہت سے حنفی علما کو بھی اس مسئلہ میں تشفی نہیں ہوتی میرے احبانجے کئی بار اس مسئلہ کے سلسلہ میں میری طرف رجوع کیا، ان کو جواب لکھتے وقت ہمیشہ یہ خیال دل میں آتا تھا کہ اس مسئلہ کو مل طور پر رقم کر لوں لیکن مشیت ایزدی کہ اس کا موقع نہ آتا تھا۔

حسن اتفاق سمجھئے کہ گجراتی ماہنامہ تبلیغ وتر کیس میں حرمت مصاہرت کے سلسلہ میں کسی کا ایک فتقومی شائع ہوا، جس پر برطانیہ میں مقیم ایک گجراتی مسلمان نے چند اعتراضات ایڈیٹر کو لکھ بھیجے رسالہ کے مدیر مولانا غلام محمد نورگت صاحب نے اس پیچ میرز کو حکم فرمایا کہ اس کا جواب لکھے، طبیعت کسی طرح آمادہ نہیں ہوتی تھی ۔ کیونکہ اعتراضات

ن علمی تھے منطقی، اس لئے جواب جاہلاں باشد خموشی پر عمل مناسب معلوم ہوتا تھا، لیکن موصوف کا اصرار بڑھتا گیا ، در حقیقت وہ اپنے ماہنامہ کے لئے مضمون لکھوانا چاہتے تھے ۔ چنانچہ جب میں اس مسئلہ لکھنے کے لئے بیٹھا تو محسوس ہوا کہ خالی الذہن قاری کے سامنے جب تک مسئلہ کے تمام گوشے نہ آجائیں بات کما حقہ سمجھنا دشوار ہے پہچانچہ تفصیل ناگزیر ہوگئی مسئلہ دقیق ہے، نیز عقلی دلائل کا سمجھنا بھی شخص کا کام نہیں، تاہم امکانی سعی کی گئی ہے کہ مسئلہ واضح ہو جائے۔ امید ہے قارئین کرام بحث کی روشنی میں بات اچھی طرح سمجھ سکیں گے

وما توفيقى الا بالله ، وبنعمته تتم الصالحات سعید احمد پالن پوری دار العلوم اشرفیه را ندیر ضلع سورت

8196./9/90

مقدمه طبع ثانی

۶۱۹۷۰/۱۲/۲۵

عرصہ سے کتاب کا ایڈیشن ختم تھا ، احباب کا مسلسل اصرار رہا کہ دوبارہ شائع کی جائے، چنانچہ نظر ثانی کر کے اور ایک ضروری مسئلہ بڑھا کر اشاعت کے لئے دی جارہی ہے ، اللهم وفقنا لما تحب وترضى سعید احمد، عفا الله عنه ، خادم دارالعلوم دیوبند

حرمت مصاہرت

مصاهرة باب مفاعلہ کا مصدر ہے ، اس کا مجرد، صحر، باب فتح سے استعمال ہوتا ہے، صهر الشئ کے معنی قریب کرنا اور باب مفاعلة سے ” صاهر القوم اور فی القوم کے معنی ہیں داماد بننا – القهر کے معنی داماد، خسر اور بہنوئی کے ہیں ، اس کی جمع امهار آتی ہے۔ دو آدمیوں میں جو قرابت پائی جاتی ہے اس کے لئے عربی زبان میں مقر اور نسب کے الفاظ مستعمل ہیں، پھر وہ قرابت جس سے خاندانی رشتہ قائم ہوتا ہے اور نسل کا سلسلہ چلتا ہے ” نسب” کہلاتی ہے ، اور مہر وہ قرابت ہے جو عورتوں کے ذریعہ چلتی ہے اور جس سے خسر اور دامادی کا رشتہ قائم ہوتا ہے ۔ اول کو ” دومی نسب “اور ثانی کو ” ذوات مصر سسرالی رشتہ دار کہتے ہیں ۔

له شیخ سلیمان جمبل : حاشیه جلالین ۲۷۸/۲ – زمخشری : الکشاف من حقائق التنزيل ۹۸۱/۲ (مطبوعه کلکته)

Hurmat e Musahrat

By Maulana Saeed Ahmad Palanpuri

Read Online

Download (5MB)

Link 1      Link 2

RELATED ARTICLES

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

توجہ فرمائیں eislamicbook healp

Most Popular