Saturday, April 20, 2024
HomeLatest || تازہ ترینادیان کی جنگ

ادیان کی جنگ

ادیان کی جنگ

جب یہ امت عروج میں تھی تو اس کے علماء و فقہاء کی تو بات کا مر کتر یہ ہوتا تھا کہ وہ بیرونی گلری پیاروں سے اسلامی عقائد کو محفوظ رکھیں، علم و عمل کے میدانوں میں کفار کے حملوں کا مقابلہ کریں ، وین وقت کی پاکیز اور موت کو چہار دانگ عالم میں نشر کریں ، اس دعوت کو دلائل و براہین اور تو ستان ہر دو و رائع سے غالب کمر ہیں ، گمراہ فرقوں کی تحریفات کو اہل سنت کے یہاں در آنے سے روکیں اور دین کے روشن چہرے پہ ترانہ گزرنے کے ساتھ جو گرد و تیار ہے اسے نہایت تن دہی سے صاف کرتے جائیں تا کہ اللہ جل شانہ نے اپنے دین کی حفاظت کا جو وعدہ کیا ہے ، اس کی تکمیل میں ان کا حصہ بھی لکھا جا سکے۔ تبھی اس امت کے اہل علم بھی روم و قادتی کے خلاف میدان جہاد میں بر سر پیکار نظر آئے، بھی خوارج اور روافض کے فتنوں کا علمی و عملی مقابلہ کرنے میں مصروف

ہے، بھیا یونانی فلٹے کے ترمہریلے حملوں سے امت کے عقائد کا تحفظ کیا، تبھی باطنی فرقے کی سازشوں سے امت کو خیر و پر کیا بھی جابر حکمرانوں کے آگے کلمہ مت کہہ کر اذیتیں ہیں اور بھی تاتار کی یلغار اور بھی صلیبی حملوں کے مقابلے کے لیے امت کو بیدار کیا۔ اللہ کی رحمتیں ہوں ان علماء

پھر جب امت پر زوال آنا شروع ہو اور ترجیحات تجدہ میں ہونے لیں ۔ امت بیرونی خطرات سے منہ پھیر کر داخلی کھینچاتانی اور باہمی اختلاف کا شکار ہو گئی ۔ امت کے علماء کی تحقوں میں بھی مسلمانوں

کے متفقہ اصول و عقتان کے تحفظ سے زیادہ مسلمانوں کے اندر ہی فرو گی مباحث پر معرکے جمانے کا رجحان بڑھنے لگا ، شریعت کی حاکمیت قائم کرنے سے زیادہ اپنے اپنے مکتبہ فکر کو غلبہ دلانے کا جذبہ زور پکڑتا گیا اور تینتا یہ امت اپنے داخلی اختلافات میں الی ابھی کہ ہر قسم کی بیرونی یلغار کے

لیے دروازے چوپٹ کھل گئے اور ان در واتروں پر کوئی اور بات ، امت کا کوئی محاقی ، کوئی نگهبان و پاسبان باقی نہ بچا… سوائے اہل علم واہل درد کی ایک قلیل تعداد کے جو تباتایا محاذ سنبھالنے کے لیے ناکافی ثابت ہوئے۔ تیتا مغرب نے نہ صرف میں عسکری اور سیاسی طور پر مغلوب کیا، بلکہ

پیش اثر | او بیان کی جنگ ؛ دین اسلام یا دین جمہوریت مغرب کے متعفن شرکیہ عقائد و انکار بھی امت میں اور آئے۔ اسلام کے بنیادی اصولوں سے متصادم نظریات کو عین اسلام قرار دیا جانے لگا، اسلام کی ایک ایسی تنشر ت کی جائے گی جو حاضر و موجوو نظام اور غالب تہذیب سے ملات پر مبنی ہو، بلکہ اس کی اور قدر اور عقیدے اور تصور کو اسلام بھی

سے ثابت کرتی ہے۔ ماضی قریب تک میں غلامانہ ذہنیت اور زوال پزیر قوموں کا یہ اسلوب ہماری علمی فضا پر راج کرتار پا، اور اس کے خلاف مزاحمت کرنے والی آواز میں کمزور اور ناتواں ہوتی لیں۔

لیکن اللہ نے اس دین کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے ۔ یہ الله کا آخری دین ہے اور اس کی اپنی طبیعت میں کفار کی توقع سے کہیں زیاد وایفاوت و مزاحمت کا درد اور پٹے چھوٹے کا جذ بہ و قوت موجود ہے۔ ایسنا اللہ کے فضل سے گزشتہ سالوں میں بالخصوص روس کے خلاف جہاد اور پھر گیارہ ستمبر کے مبار ک واقعات کے بعد امت میں پھر سے بڑے پیا نے پر بیداری کا ایک عمل شروع ہوا ہے۔ میر وان سے آنے والی قمری و مسلم کی یلغار کے مقامال کھٹر کی کمزور آواز میں توانا ہونے کی ہیں ، مجاہد ین کی غربت و امنیت دور ہو رہی ہے، ان کو علماء کی تعداو وان بدن بڑھ رہی ہے اور امت نے الحمد للہ پھر

سے عروج کی طرف سفر شروع کر دیا ہے۔ اس سفر کا آغائر ہو جانے کی ایک ام و سیل یہ ہے کہ امت کے اہل علم میں، عرب و شام کے دینی حلقوں میں ، اللہ رب العزت مستقل ایسے افراد اٹھارہے ہیں جو اسلاف کے علماء کی طرح امت کو دور میں حقیقی خطرات کی طرف متوجہ ہوئے ہیں، بیرونی یلغاروں

کے خلاف بند باندھنے کا کام کر رہے ہیں ، امت کو فرو گی و نظری مباحث سے نکال کرا م تر اصولی اور عملی امور کی طرف متوجہ کر رہے ہیں اور بالخصوص مغرب کے جو ہار پہلے انکار ہمارے یہاں در آنے ہیں ، ان کی نشان دہی کرنے ، ان کا ابطال کرتے اور اسلام کی پالیز و تعلیمات کو ان کے اصل رنگ میں پیش کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

ایسے ہی اہل علم میں سے ایک، مجاہد عالم و معیت مولانا عاصم عمر صاحب دامت بر کا حکم بھی ہیں، حسبه كذلك والله حسی ہے۔ آپ کا نام برصغیر کے معامی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اس سے قبل بھی آپ کی متعدد تحریرات منظر عام پر آچکی ہیں جن میں نہایت و لسوزی سے امت کو ان خطرات

سے خبر دار کیا گیا ہے جن میں وہ گھری ہوئی ہے اور اسے اپنے دین کی طرف والی پلٹنے اور اسے مضبوطی سے تھامنے کا درس دیا گیا ہے ۔ الله تعالی نے ان تحریرات کو خصوصی مقبولیت سے نوازا اور انہیں عوام و خواص میں یکساں پذیرائی تھی۔

پی ان ادیان کی جنگ کو دین اسلام یا دین جمہوریت آپ کی زیر نظر تصنیف وقت کی ایک اہم ضرورت کو پورا کرتی ہے اور عصر حاضر کے سب سے بڑے تھے ، فتنہ و جمہوریت کی حقیقت آشکارا کرتی ہے۔ کتاب میں جمہوریت کا مختصل شر کی محاکمہ کیا گیا ہے اور عقل اور رواں دونوں کو پہلی کرنے والے والا کل کے قر لیے جمہوری قر و قلتے اور جمہوری نظام کی قباحت اور اس کا اسلام سے صرت تصادم واضح کیا گیا ہے۔ نیز شریعت سے ہٹ کر فیصلے کرنے والی عد اتواں کی شناعت و خطر تا کی بھی قرآن و سنت اور ائمہ کرام کے اقوال کی روشنی میں لولی بیان کیا گیا ہے۔ مصنف نے ایک محبت کرنے والے دوائی کی طرح امت کو جمہوریت کے فتنے کے مفاسد سمجھائے ہیں، ہر اس دلیل کا جواب دینے کی کوشش کی ہے جسے جمہوری نظام میں شامل ہونے والے حضرات اپنے اس فعل کے جواز میں بیان کرتے ہیں ، ہر ممکنہ شے کو دور کرنے اور چار اشکال کو رفع کرنے کی سعیا گیا تاکہ کار میں خود کو اس فتنے سے علیحدہ کر لیں۔ پھر آپ نے موجود و أفلام ہائے باطل کو منہدم کرنے کے اصل راستے میں مسلح جہاد کا شرعی و عقلی جواز بھی بیان کیا ہے تا کہ جمہوری نظام سے نکلنے کا فیصلہ کرنے والوں کی صلاحیتوں کو درست در و یا جا سکے۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ آپ کی اس تصنیف کو جمہوریت کا بت توڑنے کا ذریعہ بنائے اور با وسایلی و بین طبقات کو اس کے سحر سے نکالنے کا باعث بناہ سے۔ الہ الی تصنیف کے در پے اہل پاکستان کی گردنوں پر مسلط باطل نظام کی برائی ، دین جمہوریت کا دین اسلام سے تضاد اور مغربی اذکار کا اسلامی عقائد سے تصادم یہاں بسنے والے مسلمانوں کے قلوب و از بانه کشف فرمادے تاکہ وو اینی زندگیاں اس کلام کو الٹا نے ، مغربي عتاد ، مغربی افکار اور مغربی طرز حیات سے نجات پانے اور اس کی کہ اسلامی عقائد عام کرنے، اسلامی طمر بر زندگی راج کرنے اور شرعی نظام قائم کرنے کے لیے وقف کر دیں۔ آمین!

وصلى الله علی نبینا محمد و علی آلہ و صحبہ وسلم

Adyan Ki Jang By Molana Asim Umar

Read Online

Download

RELATED ARTICLES

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

توجہ فرمائیں eislamicbook healp

Most Popular