Friday, April 26, 2024

مشعل راہ

 مشعل راہ

رسول کریم ﷺ کی احادیث صحیحہ کا مجموعہ، زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق تعلیمات نبوی ﷺ کا نچوڑ

 مشعل راہ

اظہار تشکر

اللہ تعالی نے یہ سعادت بخشی کہ امامت کی ذمہ داری ملنے کے ساتھ درس حدیث کا سلسلہ شروع کر دیا جس کا مقتدی حضرات کو بہت فائدہ ہو ا وقتا فوقتا مقتدی حضرات اسکا اظہار بھی کرتے تھے کہ ہمیں اس سلسلہ درس حدیث سے بہت فائدہ ہورہا، اور ساتھ ہی ڈھیر ساری دعائیں بھی دے دیا کرتے تھے، اس سے اللہ تعالی نے دل میں یہ بات ڈال دی کہ اگر علم حدیث کی عوامی انداز میں انتہائی آسان طرز پر خدمت کر کے عوام الناس کے فائدے کے لئے شائع کر دی جائے تو اللہ تعالی کی ذات سے امید ہے کہ عوام الناس کو فائدہ بھی بہت ہو گا اور مجھ ناچیز کے لئے صدقہ جاریہ کا بھی ذریعہ ہو جائے گا بس اللہ تعالی کا نام لیکر اس پر کام شروع کر دیا، ترتیب یہ اپنائی ہے کہ مشکوۃ المصابیح سے مختصر احادیث کا انتخاب کر کے مظاہر حق سے مختصر تشریح بھی لکھ دی تا کہ عوام الناس کو زیادہ فائدہ ہو، اللہ تعالی کی مدد ہر قدم پر شامل حال رہی اور یہ کام خیر وعافیت سے پایہ تکمیل تک پہنچا اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی اس کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما کر میرے لئے صدقہ جاریہ ثابت فرمائے

ابو مہیب شاری عفی عنہ

ایمان کا بیان

مشعل راه

ایمان کام

ایمان کا مطلب ” ایمان” کے معنی ہیں، یقین کرنا، تصدیق کرنا، مان لینا۔ اصطلاح شریعت میں ” ایمان” کا مطلب ہوتا ہے، اس حقیقت کو تسلیم کرنا اور مانا کہ اللہ ایک ہے، اس کے علاوہ کوئی معبود اور پروردگار نہیں، اس کے تمام ذاتی و صفاتی کمالات برحق ہیں۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اللہ کے آخری رسول اور نبی ہیں، ان کی ذات صادق و مصدوق ہے اور یہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کتاب وسنت کی صورت میں اللہ کا جو آخری دین و شریعت لے کر اس دنیا میں آئے اس کی حقانیت و صداقت شک و شبہ سے بالا تر ہے ۔ تر ہے۔ تکمیل ایمان : محمد ثین کے نزدیک” ایمان کے تین اجزاء ہیں : ” تصدیق با لقب ” یعنی اللہ کی وحدانیت، رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور دین کی حقانیت پر دل سے یقین رکھنا اور اس یقین و اعتماد پر دل و دماغ کا مطمئن رہنا۔ اقرار باللسان ” یعنی اس دلی یقین و اعتقاد کا زبان سے اظہار، اعتراف اور اقرار کرنا یہ اعمال بالجوارح” یعنی دین و شریعت کے احکام و ہدایات کی جسمانی بجا آوری کے ذریعہ اس دلی یقین و اعتقاد کا عملی مظاہرہ کرنا۔ ان تینوں اجزاء سے مل کر ” ایمان” کی تکمیل ہوتی ہے اور جو آدمی اس ایمان کا حامل ہوتا ہے اس کو ” مومن و مسلمان ” کہا جاتا ہے ۔ 

ایمان اور اسلام : کیا ایمان اور اسلام میں کوئی فرق ہے یا یہ دونوں لفظ ایک ہی مفہوم کو ادا کرتے ہیں ؟ اس سوال کا تفصیلی جواب تفصیلی بحث کا متقاضی ہے جس کا یہاں موقع نہیں ہے۔ خلاصہ کے طور پر اتنا بتا دینا کافی ہے کہ ظاہری مفہوم و مصداق کے اعتبار سے تو یہ دونوں لفظ تقریباً ایک ہی مفہوم کے لیے استعمال ہوتے ہیں لیکن اس اعتبار سے ان دونوں کے درمیان فرق ہے کہ ایمان” سے عام طور پر تصدیق قیمی اور احوال باطنی مراد ہوتے ہیں جب کہ اسلام سے اکثر و بیشتر ظاہری اطاعت و فرمان برداری مراد لی جاتی ہے اس کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ وحدانیت، رسالت اور شریعت کو ماننے اور تسلیم کرنے کا جو باطنی تعلق دل و دماغ سے قائم ہوتا ہے اس کو ” ایمان” سے تعبیر کرتے ہیں اور اس باطنی تعلق کا جو اظہار عمل جوارح کے ذریعہ ظاہری احوال سے ہوتا ہے اس کو ” اسلام” سے تعبیر کرتے ہیں، ایک محقق کا قول ہے تصدیق قلبی جب پھوٹ کر جوارح ” اعضاء پر نمودار ہو جائے تو اس کا نام ” اسلام” ہے اور اسلام جب دل میں اتر جائے تو ” ایمان” کے نام موسوم ہو جاتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ حقیقت ایک ہے مواطن کے اعتبار سے اس کو کبھی ” ایمان” کہا جاتا ہے اور کبھی اسلام اسی لیے ایمان اور اسلام ایک دوسرے کے لیے لازم ملزوم ہیں، نہ تو ایمان کے بغیر اسلام معتبر ہوگا اور نہ اسلام کے بغیر ایمان کی تکمیل ہوگی۔ مثلاً کوئی آدمی پانچوں وقت کی نماز بھی پڑھے، ہر سال زکوۃ بھی ادا کرے، استطاعت ہو تو حج بھی کر ڈالے اور اسی طرح دوسرے نیک کام کر کے اپنی ظاہری زندگی کو ” اسلام” کا مظہر بنائے ہوئے ہو مگر اس کا باطن قلبی تصدیق و انقیاد سے بالکل خالی ہو اور کفر و انکار سے بھرا ہوا ہو تو اس کے یہ سارے اعمال پیکار محض قرار پائیں گے اسی طرح اگر کوئی آدمی ایمان یعنی قیمی تصدیق و انقیاد تو رکھتا ہے مگر عملی زندگی میں اسلام کا مظہر ہونے کے بجائے سرکشی و نافرمانی کا پیکر اور کافراند ومشر کا ناعمال کا مجسمہ بنا ہوا ہے تو اس کا ایمان فائدہ مند نہیں ہوگا بعض اہل نظر نے ایمان اور اسلام کی مثال ” شہادتین ” سے دی ہے یعنی جیسے کلمہ شہادت میں دیکھا جائے تو شہادت وحدانیت الگ ہے اور شہادت رسالت الگ ہے۔ لیکن ان دونوں کا ارتباط و اتحاد اس درجہ کا ہے کہ شہادت رسالت کے بغیر شہادت وحدانیت کارآمد نہیں اور شہادت وحدانیت کے بغیر شہادت رسالت کا اعتبار نہیں۔ ٹھیک اسی طرح” ایمان” اور” اسلام” کے درمیان دیکھا جائے تو بعض اعتبار سے فرق محسوس ہوتا ہے لیکن ان دونوں کا ارتباط و اتحاد اس درجہ کا ہے کہ اعتقاد باطنی ( یعنی ایمان) کے بغیر صرف اعمال ظاہرہ (اسلام) کھلا ہو انفاق میں اور اعمال ظاہرہ کے بغیر اعتقاد باطن کفر کی ایک صورت ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ایمان اور اسلام دونوں کے مجموعہ کا نام دین” ہے۔ 

یہ بھی پڑھیں: ان پیج 2121 میں مفت ڈاون لوڈ کریں

ایمان کا مدار جاننے ” پر نہیں ماننے ” پر ہے : ایمان کے بارے میں اس اہم حقیقت کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ تصدیق یعنی ماننے کا نام ایمان ہے نہ کہ محض علم یا معرفت یعنی جاننے کا مطلب یہ کہ ایک آدمی جانتا ہے کہ اللہ ہے اور اکیلا ہے وہی پروردگار اور معبود ہے، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سچے بندے اور اس کے رسول ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے جس دین و شریعت اور تعلیمات کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، و مبنی برحقیقت و صداقت ہے۔ مگر وہ آدمی دل سے ان باتوں کو نہیں مانتا، ان پر اعتقاد نہیں رکھتا ، اس کا قلب ان باتوں کے اذعان و قبول سے خالی ہے تو اس آدمی میں ” ایمان” کا وجود نہیں مانا جائے گا اس کو مومن نہیں کہا جائے گا۔ مومن تو وہی آدمی ہو سکتا ہے جو ان باتوں کو سچ اور حق بھی جانے اور دل سے مانے اور تسلیم بھی کرے۔ جب داعی حق (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اسلام کی دعوت پیش کی تو تمام اہل عرب با لخصوص اہل کتاب (یہود ونصاری) الوہیت کے بھی قائل تھے اور یہ بات بھی خوب جانتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اللہ کے سچے اور آخری رسول ہیں اور جو دین و شریعت پیش کر رہے ہیں وہ حق اور سچ ہے۔ مگر ان میں سے جولوگ حسد وعناد رکھنے کے سبب ان حقائق کو مانتے اور تسلیم نہیں کرتے تھے ان کے دل و دماغ میں ایمان کا نور داخل نہیں ہو سکا اور وہ کافر کے کافر ہی رہے، ان حقائق کا جانا ” ان کے کسی کام نہ آیا۔ بعض صورتوں میں ” اقرار باللسان ” کی قید ضروری ہے :

 جن حقائق کو ایمان سے تعبیر کیا جاتا ہے ان کا زبان سے اقرار کرنا گو وجود ایمان کے لیے ضروری ہے لیکن بعض حالتوں میں یہ زبانی اقرار ( اقرار باللسان) ضروری نہیں رہتا۔ مثلاً اگر کوئی آدمی گونگا ہے اور اس کے قلب میں تصدیق تو موجود ہے لیکن زبان سے کوئی لفظ ادا کرنے پر قادر نہیں ہے تو ایسے آدمی کے بارے میں یہ حکم ہے کہ اس کا ایمان زبانی اقرار کے بغیر بھی معتبر مانا جائے گا، اسی طرح کوئی آدمی جانی خوف یا کسی واقعی مجبوری کی بنا پر زبان سے اپنے ایمان کا اقرار نہیں کر سکتا تو اس کا ایمان بھی زبانی اقرار کے بغیر معتبر ہوگا ” اعمال ” کی حیثیت : وجود ایمان کی تکمیل کے لیے اعمال ” بھی لازمی شرط ہیں کیونکہ تصدیق قلب اور زبانی اقرار کی واقعیت و صداقت کا ثبوت” اعمال” ہی ہیں۔ یہی عملی ثبوت ظاہری زندگی میں اس فیصلہ کی بنیاد بنتا ہے کہ اس کو مومن و مسلمان کہا جائے اسی بنا پر یہ حکم ہے کہ اگرکوئی آدمی دعوائے ایمان و اسلام کے باوجود ایسے اعمال کرتا ہے جو خالصتاً کفر کی علامت اور ایمان و اسلام کے منافی ہیں، یا جن کو اختیار کرنے والے پر کافر ہونے کا یقین ہوتا ہے تو وہ آدمی کا فر ہی شمار ہو گا اس کے اور ایمان و اسلام کا دعوی غیر معتبر مانا جائے گا۔ 

ایمان کے شعبے

عن أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ” الْإِيمَانُ بِضَع وَسَبْعُونَ شُعْبَة فأفضلها : قول لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَدْنَاهَا إمَاطَةُ الْأَذَى عَن الطَّرِيق والحيا شُعْبَة من  الایمان

 

Mashal e Rah By Mufti Nisar Muhammad

Read Online

Download (28MB)

Link 1       Link 2

مشعل راہ
مشعل راہ
RELATED ARTICLES

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

توجہ فرمائیں eislamicbook healp

Most Popular