Sunday, April 28, 2024

انفاس العارفین

انفاس العارفین

انفاس العارفین اردو

تالیف: حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی

ترجمہ و تبویب، تسہیل و تہذیب: مولانا عمران علی مظاہری

مقدمه

چند لمحات عارفین کی صحبت میں

نا در مکتوبات (شاہ ولی اللہ ) کی اشاعت پر اسکے اجراء کے موقع پر اردواکیڈمی کے جلسے میں ملت کے خواص اور علماء ومشاہیر کی موجودگی سے شیخ العرب والعجم سیدی ومرشدی حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی نور اللہ مرقدہ نے خطاب میں بھی فرمایا اور اسکے پیش لفظ میں بھی یہ بات تحریر فرمائی: اہل علم و صاحب نظر جانتے ہیں کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی احیاء دین، اشاعت کتاب وسنت ، اسرار و مقاصد شریعت کی توضیح و تنقیح تربیت وارشاد اور ہندوستان میں ملت اسلامی کے تحفظ و تشخص کے نہ صرف علمبرداروں میں ہیں بلکہ ان میں بھی ایک امتیاز اور سیادت و قیادت کے حامل اور علمبردار ہیں ، جس کی مثال عہدوں اور ملکوں بھی مشکل سے ملتی ہے امت کی تاریخ میں عالمانه و مجتہدانہ مصلحانہ ومجددانہ، مؤلفانہ مفکرانہ امتیاز رکھنے والی شخصیتوں کی کوئی مختصر سے مختصر اور ذمہ دارانہ سے ذمہ دارانہ فہرست بنائی جائے تو اس میں ان کا نام آنا ضروری ہے۔ میرے حضرت والا فرماتے تھے کہ حجتہ الاسلام حضرت شاہ ولی اللہ کو تو لوگ جانتے اور مانتے ہیں مگر جن شخصیات نے حضرت شاہ ولی اللہ کو شاہ ولی اللہ بنایا ان کو جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے، جن شخصیات نے ان کو شاہ ولی اللہ اور حجتہ الاسلام بنایا اور انکی تربیت کرنے والے مدرسین کا تذکرہ حضرت شاہ ولی اللہ نے خود اپنے قلم سے اپنے رسائل میں کیا ہے، جس کا مجموعہ انفاس العارفین کے نام سے شائع ہوتارہا ہے۔

مولا نے امت میں ان اولیاء کاملین اور علماء ربانیین اور عارفین صادقین کی تاریخ تواتر کے ساتھ امت کے علماء اور قدر دانوں کیلئے محفوظ کی ہے، اور وہ رہتی دنیا تک اس سے فیضیاب ہونے کے لئے ملت کا سرمایہ ہے، مگر ان میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے اسلاف، مشائخ ، اور اساتذہ کو امتیازی شان عطا کی گئی تھی۔

اپنے اجداد اور اساتذہ کے حالات پر مشتمل یہ رسائل حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ علیہ نے فارسی زبان میں تحریر فرمائے، جن کے کئی ترجمے شائع ہو چکے ہیں، اس حقیر کا بھی تاثر ہے اور انفاس العارفین کے پڑھنے والے جس بڑے سے بڑے عالم سے اس حقیر نے انفاس العارفین کا تذکرہ کیا انکا تاثر بھی یہ تھا کہ شاہ صاحب کے اجداد، مشائخ، اساتذہ خصوصاً شاہ صاحب کے والد ماجد اور شیخ و مرشد حضرت شاہ عبد الرحیم صاحب جن کا تذکرہ اس مجموعے میں سب سے زیادہ تفصیل کے ساتھ کیا گیا ہے، کے حالات پڑھ کر آخری درجہ کا احساس کمتری بہت دور ہوتا دکھائی دینے لگتا ہے، اور دل میں اللہ کے تعلق اور قرب میں سب کچھ مٹا دینے کا جذبہ اور گدگدی سی پیدا ہونے لگتی ہے، میرے حضرت والا حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی نوراللہ مرقدہ فرماتے تھے کہ سیرت و سوانح بہترین واعظ ہوتے ہیں، اور یہ نورانی اور روحانی واقعات اولیاء اللہ اور علماء ربانیین کی صحبت کے قائم مقام ہوتے ہیں ، انسان کی فطرت اور مزاج کے اندر اللہ تعالیٰ نے یہ بات رکھی ہے کہ انسان جیسے لوگوں کی سیرت وسوانحات پڑھتا ہے، اس میں وہ صفات حمیدہ منتقل ہوتی ہیں ، اس ضرورت کے پیش نظر انفاس العارفین کو نئی نسلوں کے لئے پڑھنا بے حد مفید اور ضروری ہے۔ انفاس العارفین کے کئی اردو تراجم ہوئے اور شائع ہوتے رہے ہیں ، ان میں سے اکثر تراجم ان لوگوں نے کئے ہیں جو ایک خاص پس منظر میں شاہ صاحب کو پیش کرنا چاہتے ہیں اور احوال و واقعات اور خاندانی اصل سمجھتے ہیں ، جن کے بارے میں خود شاہ صاحب نے کئی جگہ وضاحت کی ہے کہ اولیاء کے احوال لپیٹ کر رکھ دینے کے لئے ہوتے ہیں۔ یہ بھی ایک بدیہی حقیقت ہے کہ رسم ورواج انسان کی ایک فطری مجبوری ہے، اور بڑے بڑے مصلحین کے خاندانوں میں کچھ ایسی خاص رسمیں رواج پذیر دکھائی دیتی ہیں جن کی اصل قرآن وسنت سے ثابت نہیں ، مگر کبھی تو بشریت کے سبب انکی نگاہ ان تک نہیں جاتی ، اور کبھی قرآن وسنت سے مزاجی مناسبت اور اصل سے تعلق جوڑنے کی مہم میں محض رسموں سے ٹکرانے سے احتراز کرتے ہوئے ٹکراؤ کے راستے سے بچنے کی وجہ سے یہ مصلحین خاموشی اختیار کرتے بلکہ شریک ہوکر ان کی اصلاح، اور کم از کم کھلی خرافات سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ زبانیں جو اللہ کی نشانیاں ہیں ، یہ زمان و مکان کے لحاظ سے بدلتی رہتی ہیں اور ان کا بدلاؤ بھی اصل میں اللہ کی نشانی ہے، اہلِ زبان کا خیال ہے کہ ہر چالیس میل اور چالیس سال میں زبان اپنے لب ولہجہ کو بدل دیتی ہے، ایک تو پہلے ہی یہ ان ملکوتی اور علوی صفات عارفین اور علماء ربانیین کے حالات و واقعات ہیں کہ جن کی روحانی اور عرفانی سطح کو سمجھنا آج کے پست ہمت لوگوں کیلئے مشکل ہے ، پھر ناقل اور لکھنے والی شخصیت حجۃ الاسلام حضرت شاہ ولی اللہ ، جن کی علمی اور روحانی سطح کیلئے میرے حضرت والا حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ کسی عالم کی سند کیلئے یہ کافی ہے کہ وہ حضرت شاہ صاحب کی معرکۃ الآرا کتاب حجتہ اللہ البالغہ کی ایک سطر کو کما حقہ سمجھ لے، اسکے علاوہ ترجمہ کرنے والوں نے تو اس کے رخ کو اور بھی موڑ دیا تھا۔

میرے حضرت والا حضرت مولاناسید ابوالحسن علی ندوی رحمتہ اللہ علیہ نے پھلت میں ایک اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے یہ بات ارشاد فرمائی تھی کہ یہ دور اور اس دور کے سارے ادارے اور دینی تحریکیں شاہ ولی اللہ کا امتداد و تسلسل ہیں اور ان میں اس وقت تک خیر شامل ہے جب تک وہ اسی نہج پر رہیں۔ )

خیر کے اس تسلسل وامتداد اور اس کے مربین کے حالات کو سمجھنا اور پڑھنا اس دور سے صحیح طور پر وابستہ رہنے اور شاہ صاحب سے فکری اور روحانی انتساب کرنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ شاہ صاحب کے مشائخ ، اساتذہ اور اجداد کے حالات کو پڑھیں ،لہذ ا شدید ضرورت تھی کہ انفاس العارفین کا کوئی سلیس ترجمہ شائع کیا جائے، اسکے لئے اس حقیر نے اپنے فاضل دوست اور فیق جناب مولانا عمران مظاہری زید لطفہ کو متوجہ کیا، اللہ تعالیٰ کو یہ سعادت ان کے مقدر میں لکھنی تھی ، انھوں نے بھی اپنے ولی اللہی ہونے کا حق سمجھ کر اس کا ارادہ کیا۔ چند روز پہلے ان کی ایک تحقیقی تصنیف اسماءالحسنی پر آئی تھی، اور بھی سیرت وغیرہ پر وہ بڑا قابلِ رشک کام کر رہے ہیں انھوں نے الحمد للہ بڑے سلیقے سے اس کا موجودہ سلیس زبان میں ترجمہ بھی کیا اور اس میں کتاب کو پڑھنے والوں کے لئے ایک مفید اور تحقیقی مقدمہ بھی لکھا ، اس پر مزید یہ کہ محقق عالم دین مولانا نور الحسن راشد صاحب کاندھلوی کی بھی ایک قابل قدر تحریر اس میں شامل فرمائی۔

ترجمہ کافی عرصہ ہوگیا ہمل ہوگیا تھا، اس حقیر سے تعلق کی بنا پر ان کا اصرار تھا کہاس پر یہ حقیر بھی کچھ لکھے، مگر یہ حقیر ہر مرتبہ اس کتاب کو پڑھ کر ان خاصان کی عظمت کے ادب میں زمین میں گڑا جاتارہا، ہمت جواب دیتی تھی کہ ان نفوس قدسی کے تذکرہ پر یہ بے بضاعت کیا لکھے، مگر وہ ترجمہ اشاعت سے رکا رہا تو مناع للخير بننے کے خوف سے بچنے کیلئے مجبوراً یہ کالی لکیریں کاڑھ دی ہیں، رب کریم اس احساس کمتری کو ہی قبول فرمالیں۔

اب یہ ترجمہ ہر خاص و عام کے لئے مولانا موصوف کی طرف سے ایک مبارک تحفہ ہے، اپنے اپنے ظرف اور سطح کے لحاظ سے جو چاہے اس سے فائدہ اٹھائے ، رب کریم اس ترجمے کو امت کو خیر کے اس ولی اللہی امتدادہ تسلسل کے ساتھ جوڑنے کا ذریعہ بنائے ، اور مولانا محترم کو ہم سب کی طرف سے اجر عظیم عطا فرما کر ان کے لئے بھی دارین کے لئے سرمایۂ خیر بنائے۔

والسلام

خاک پائے خدام دین محمد کلیم صدیقی

Anfas ul Arifeen

By Shah Waliullah Dehlvi

Read Online

Download (6MB)

Link 1      Link 2

 

 

RELATED ARTICLES

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

توجہ فرمائیں eislamicbook healp

Most Popular