Friday, March 29, 2024
Home Blog Page 2

بچوں کی تربیت

بچوں کی تربیت

بچوں کی تربیت تالیف: مولانا سراج الدین ندوی

بچہ خواہ لڑکا ہو یا لڑکی :

اللہ کی عظیم نعمت ہے۔

تمناؤں اور آرزؤں کا مرکز و محور ہے۔

وه کھلتا ہوا پھول ، چمکتا ہوا تارہ اور نکھرتا ہوا چودھویں کا چاند ہے۔ آنکھوں کی ٹھنڈک دلوں کا سرور اور مستقبل کی کرن ہے۔ خوشیوں کا گہوارہ ، غموں کا مداوا اور اندھیروں کا اجالا ہے۔ زندگی کا ماحصل ، خوش بختی کا نشان اور سرفرازی کی علامت ہے۔ بے قراری میں قرار بے چینی میں چین، پریشانی میں سکون اور رنج والم

میں شادمانی ہے۔ ماں باپ کی زندگی بھائی بہنوں کا پیار گھر کی رونق، محلے کی زینت اور بستی

کی شان ہے۔

پھولوں کی خوشبو ، باغوں کی ہریالی، چشموں کی روانی ، آسمانوں کی بلندی

سمندروں کی گہرائی ہے۔

معصومیت کا پیکر، بے گناہی کا نمونہ سادگی کا مجسمہ ہے۔

جس کے آرام کے لیے ہم تھکتے ہیں، جس کی نیند کے لیے ہم جگتے ہیں

Bachon ki Tarbiyyat

By Maulana Siraj ud Din Nadwi

Read Online

Bachon ki Tarbiyyat By Maulana Siraj ud Din Nadwi بچوں کی تربیت

Download (2MB)

Link 1       Link 2

المختصر فى تفسير القران الكريم

المختصر فى تفسير القران الكريم

المختصر فى تفسير القران الكريم جدید

تصنیف: جماعۃ من العلماء

ترتیب جدید: ابو صہیب مفتی نثار محمد

Al Mukhtasar fi Tafsir al Quran

By Mufti Nisar Muhammad

Read Online

Al Mukhtasar fi Tafsir al Quran By Mufti Nisar Muhammad المختصر فى تفسير القران الكريم

Download (13MB)

Link 1       Link 2

 

وفاق المدارس پوزیشن ہولڈر رزلٹ 2024

وفاق المدارس پوزیشن ہولڈر رزلٹ 2024

وفاق المدارس پوزیشن ہولڈر رزلٹ 2024۔ سال 2024 میں وفاق المدارس کے رزلٹ کے نتیجے میں مندرجہ ذیل طلباء نے پوزیشن حاصل کی ہیں۔

Result Wifaqulmadaris and Position Holder Result 2024

یہاں کلک کریں

ڈاون لوڈ

Wifaq Ul Madras Al Arabiya Pakistan Annual Examinations 2024 Result and Position Holders Details

وفاق المدارس کا انفرادی نتیجہ دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

درجہ سابعہ اردو شروحات

تنظیم المدارس رزلٹ 2024

تنظیم المدارس رزلٹ 2024

تنظیم المدارس رزلٹ 2024 کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ آپ نیچے دیے گئے لنک پر کلک کرکے اپنا رزلٹ معلوم کر سکتے ہیں۔

Tanzeem Ul Madaris Result 2024

Tanzim Ul Madaris Result 2024 تنظیم المدارس رزلٹ

 

رابطۃ المدارس رزلٹ 2024

رابطۃ المدارس رزلٹ 2024 آن لائن چیک کریں

Rabitatul Madaris Result 2024

رابطۃ المدارس رزلٹ 2024  نیچے موجود لنک پر کلک کریں۔ اور آفیشل سائٹ پر جائیں۔

https://rabtatulmadaris.com.pk/ems/index-regular.php

اپنا رجسٹریشن نمبر ،امتحانی درجہ اور امتحان کے سال کا انتخاب کریں۔

رابطۃ المدارس رزلٹ Rabitatul Madaris Result 2024

غیروں کی مشابہت

غیروں کی مشابہت

غیروں کی مشابہت اصول، حدود، تطبیقات

تالیف: مفتی محمد ثاقب قاسمی فتحپوری

ممانعت تشبہ کی حکمتیں

پہلی حکمت : یہ حقیقت ہے کہ ظاہر کا اثر باطن پر پڑتا ہے اگر ظاہری لباس وپوشاک صاف ستھرا ہے اس میں خوشبو لگا دی گئی ہے تو روح اور باطن میں انبساط وفرحت کی کیفیات موجزن ہوتی ہیں اور اگر کپڑے میلے کچیلے اور بد بودار ہوں تو روح میں انقباض کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔

اسی طرح اگر ایک جوان مرد اور بہادر انسان عورتوں کی طرح نازک لباس، بیش بہاز یورات اور ناز و نعم کی غیر معمولی ہیئت اختیار کرنے لگے تو چند ہی دن کے بعد اس کے دل میں بزدلی، تن آسانی آرائش و عیش پسندی کے نسوانی جذبات پیدا ہونے لگیں گے۔ اگر ایک انسان بتکلف فاخرانہ لباس پہنتا ہے تو اس لباس کے اثرات تکبر اور تفاخر وغیرہ امور اس کے قلب میں سرایت کرنے لگتے ہیں، اگر کوئی فقراء ومساکین کی ہیئت اختیار کرتا ہے تو اس ہیئت کے آثار تواضع ، خاکساری فروتنی

جیسی چیزیں اس کے باطن میں جگہ بنالیتی ہیں۔ خود شریعت نے اس تا ثیر ظاہر کو تسلیم بھی کیا ہے اور احکام میں اس کا لحاظ بھی کیا ہے، ایک حدیث میں ہے کہ صوف کا پہننا ( جو محض ظاہری عمل ہے ) ایمان کی حلاوت پیدا کرتا ہے؛ من سره ان يجد حلاوة الإيمان فيلبس الصوف ۔ (یعنی جو شخص ایمان کی حلاوت چاہتا ہے اسے اونی کپڑا پہنا چاہیے )(۱)

(۱) کنز العمال: ۳۰۱/۱۵، رقم الحدیث: ۴۱۱۱۹۔

Ghairon ki Mushabihat

By Mufti Saqib Qasmi

Read Online

Ghairon ki Mushabihat By Mufti Saqib Qasmi غیروں کی مشابہت

Download (6MB)

Link 1      Link 2

 

خلاصہ مضامین قرآنی مولانا ذاکر آدم پارکھیتی

خلاصہ مضامین قرآنی

مجموعہ خلاصہ مضامین قرآنی مرتب: مولانا ذاکر آدم پارکھیتی

مقدمه

باسمه تعالی الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على سيد الانبياء والمرسلين ، وعلى آله وصحبه اجمعین۔ اما بعد!

قرآن کریم کا چیلنج اور انسانی عجز (لبید بن ربیعہ وابن المقفع ):

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ دعوی کیا کہ قرآن کریم ایک آسمانی کتاب ہے، جو خدا تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کی رہنمائی کے لئے اتری ہے، تو بہت سے لوگوں نے اس کو نہیں مانا، انہوں نے کہا کہ یہ ایک انسانی تصنیف ہے نہ کہ خدائی تصنیف، اس کے جواب میں قرآن کریم میں کہا گیا کہ اگر تم اپنے قول میں بچے ہو تو قرآن کریم کے مانند ایک کلام بنا کر لاؤ۔ ( طور : ۳۴) اسی کے ساتھ قرآن کریم نے مطلق لفظوں میں یہ اعلان کر دیا کہ اگر تمام انسان اور جن اس بات پر اکھٹا ہو جائیں کہ وہ قرآن جیسی کتاب لے آئیں تو وہ ہر گز نہ لاسکیں گے، چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مددگار ہو جائیں۔ قل لئن اجتمعت الانس والجن على ان يأتوا بمثل هذا القرآن لا يأتون بمثله ولو كان بعضهم لبعض ظهيرا. (الاسراء: ۸۸) بلکہ اس کے جیسی ایک سورہ ہی بنا کر دکھا دیں۔

و ان كنتم في ريب مما نزلنا على عبدنا فأتوا بسورة من مثله وادعوا شهدائكم من دون الله ان كنتم صادقین۔ (بقرہ:۲۳)

اپنے بندے پر اپنا جو کلام ہم نے اتارا ہے، اگر اس کے کلام الہی ہونے کے ) بارے میں تمہیں شبہ ہے تو اس

کے جیسی ایک سورہ لکھ کر لے آؤ ، اور خدا تعالیٰ کے سوا اپنے تمام شہداء کو بھی بلا لو، اگر تم اپنے خیال میں سچے ہو۔ یہ حیرت انگیز دعوی ہے، جو ساری انسانی تاریخ میں کسی بھی مصنف نے نہیں کیا اور نہ بقید ہوش و حواس کوئی مصنف ایسا دعوی کرنے کی جرات کرسکتا ہے؛ کیوں کہ کسی بھی انسان کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ ایک ایسی کتاب لکھ دے جس کے ہم پا یہ کتاب دوسرے انسان نہ لکھ سکتے ہوں، ہر انسانی تصنیف کے جواب میں اسی درجہ کی دوسری انسانی تصنیف تیار کی جاسکتی ہے، قرآن کریم کا یہ کہنا کہ وہ ایک ایسا کلام ہے کہ اس جیسا کلام انسانی ذہن تخلیق نہیں کر سکتا، اور ڈیڑھ ہزار برس تک کسی انسان کا اس پر قادر نہ ہونا قطعی طور پر ثابت کر دیتا ہے کہ یہ ایک غیر انسانی کلام ہے، یہ خدائی منبع ( Divine Origin) سے نکلے ہوئے الفاظ ہیں، اور جو چیز خدائی منبع سے نکلی ہو اس کا جواب کون دے سکتا ہے۔ تاریخ میں چند مثالیں ملتی ہیں جب کہ اس چیلنج کو قبول کیا گیا، سب سے پہلا واقعہ لبید بن ربیعہ کا ہے جو عربوں میں اپنے قوت کلام اور تیزی طبع کے لئے مشہور تھا، اس نے جواب میں ایک نظم لکھی جو کعبہ کے پھاٹک پر آویزاں کی گئی، اور یہ ایک ایسا اعزاز تھا جو صرف کسی اعلی ترین شخص ہی کو مالتا تھا، اس واقعہ کے جلد ہی بعد کسی مسلمان نے قرآن کی ایک سورہ لکھ کر اس کے قریب آویزاں کر دی ، لبید ( جو اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے ) جب اگلے روز کعبہ کے دروازہ پر آئے اور سورہ کو پڑھا تو ابتدائی فقروں کے بعد ہی وہ غیر معمولی طور پر متاثر ہوئے اور اعلان کیا کہ بلاشبہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہے، اور اس پر میں ایمان لاتا ہوں، (448.Mohammad the Holy Prophet, by H.G. Sarwar p) حتی کہ عرب کا مشہور شاعر قرآن کریم کے ادب سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس کی شاعری چھوٹ گئی ، بعد میں ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے اشعار کی فرمائش کی تو انہوں نے جواب دیا:

” جب خدا تعالیٰ نے مجھے بقرہ اور آل عمران جیسا کلام دیا ہے تواب شعر کہنا میرے لئے زیبا نہیں۔“ دوسرا واقعہ اس سے زیادہ عجیب جو ابن المقفع کا ہے، وہ یہ ہے کہ منکرین مذہب کی ایک جماعت نے یہ دیکھ کر کہ قرآن کریم لوگوں کو بڑی شدت سے متاثر کر رہا ہے ، یہ طے کیا کہ اس کے جواب میں ایک کتاب تیار کی جائے ،انہوں نے اس مقصد کے لئے ابن المقفع (م: ۷۲۷ء) سے رجوع کیا ، جو اس زمانہ کا ایک زبر دست عالم ، بے مثال ادیب اور غیر معمولی ذہین وطباع آدمی تھا، ابن مقفع کو اپنے اوپر اتنا اعتماد تھا کہ وہ راضی ہو گیا، اس نے کہا کہ میں ایک سال میں یہ کام کر دوں گا، البتہ اس نے یہ شرط لگائی کہ اس پوری مدت میں اس کی تمام ضروریات کا مکمل انتظام ہونا چاہئے ؛ تا کہ وہ کامل یکسوئی کے ساتھ اپنے ذہن کو اپنے کام میں مرکوز رکھے۔ نصف مدت گذرگئی تو اس کے ساتھیوں نے یہ جاننا چاہا کہ اب تک کیا کام ہوا ہے، وہ جب اس کے پاس گئے تو انہوں نے اس کو اس حال میں پایا کہ وہ بیٹھا ہوا ہے، قلم اس کے ہاتھ میں ہے ، گہرے مطالعہ میں مستغرق ہے، اس مشہور ایرانی ادیب کے سامنے ایک سادہ کاغذ پڑا ہوا ہے ، اس کی نشست کے پاس لکھ کر پھاڑے ہوئے کاغذات کا ایک انبار ہے اور اسی طرح سارے کمرہ میں کاغذات کا ڈھیر لگا ہوا ہے ، اس انتہائی قابل اور فصیح اللسان شخص نے اپنی بہترین قوت صرف کر کے قرآن مجید کا جواب لکھنے کی کوشش کی ، مگر وہ بری طرح ناکام رہا، اس نے پریشانی کے عالم میں اعتراف کیا کہ صرف ایک فقرہ لکھنے کی جدو جہد میں اس کے چھ مہینے گزر گئے مگر وہ نہ لکھ سکا، چنانچہ نا امید وشرمندہ ہوکر وہ اس خدمت سے دست بردار ہو گیا۔ اس طرح قران کریم کا چیلنج بدستور آج تک قائم ہے اور صدیاں گزرگئیں ، مگر کوئی اس کا جواب نہ دے سکا۔

Khulasa e Mazamin e Qurani

By Maulana Zakir Adam

Read Online

Khulasa e Mazamin e Qurani By Maulana Zakir Adam خلاصہ مضامین قرآنی

Download (22MB)

Link 1      Link 2

میرے حضرت مدنی

میرے حضرت مدنی

میرے حضرت مدنی حالات و واقعات شیخ الاسلام حضرت اقدس مولانا سيد حسین احمد مدنی قدس سره بہ قلم شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا محمد زکریا کاندہلوی نورالله مرقده کا ماخود از آپ بیتی

Mery Hazrat Madni

By Mufti Muhammad Musab

Read Online

Mery Hazrat Madni By Mufti Muhammad Musab میرے حضرت مدنی

Download (1MB)

Link 1       Link 2

الادعیۃ الماثورۃ

الادعیۃ الماثورۃ

الادعیۃ الماثورۃ الصحیحۃ عن رسول اللہ ﷺ

مرتب: مولانا مفتی ناصر حسین قاسمی

تمہیدی کلمات

اللہ رب العزت کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے ، کہ رب ذوالجلال نے بندہ سے آج ایسے کام کی ابتداء کر دیا، جس کی مدتوں سے خواہش تھی ، بندہ کو شروع سے ہی خواہش تھی اور اس کے لیے دعا گو بھی تھا کہ اللہ رب العزت بندہ سے اپنے دین متین کی خدمت لے لیں، لہذا بندہ اپنی طرف سے سبب اختیار کرتے ہوئے عربی زبان میں علم حدیث کے موضوع پر محدثین کی عبارات و تشریحات کو دھیرے دھیرے جمع کرتا رہا، ادھر بار بارفقاء کرام اور دیگر احباب کی جانب سے دعا اور دوسرے موضوعات پر سوال بھی کیے جاتے رہے، نیز بعض رفقا کی طرف سے یہ خواہش بھی ظاہر کی جاتی رہی کہ وہ دعائیں جو صحیح حدیث سے ثابت ہیں ان کو جمع کر دیں، لیکن میں ان کی خواہش کو جمع کرنے کے وعدہ پر ٹالتا رہا۔

ایک دن یوں ہوا کہ مشکوۃ شریف کے درس کے دوران جب کتاب الدعوات کے اسباق شروع ہوئے تو دل میں یہ بات آئی کہ اس کو جمع کر لیا جائے تو بہتر ہوگا ، چناں چہ مشکوۃ المصابیح ، صحاح ستہ اور دوسری کتابوں کی مدد سے یہ مختصر رسالہ تیار کر لیا گیا

جو الحمد للہ! اب آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ بڑی ناشکری ہوگی اگر یہاں والدین، اساتذہ کرام، چچا مرحوم ، تمام همشیره و بہنوئی ، برادر مکرم حافظ سرور عالم اور رفیق درس مفتی صادق قمر قاسمی (استاذ حدیث دار العلوم سبیل السلام حیدر آباد ) کا ذکر نہ کیا جائے ، کہ ان تمام حضرات (بطورِ خاص برادر مکرم کے ہر طرح کے تعاون اور حوصلہ افزائی ہی کی وجہ سے بندہ مکمل انہاک کے ساتھ تعلیمی میدان کو عبور کر پایا ، بندہ ان لوگوں کا صلہ باری تعالیٰ کے سپرد کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو دنیا و آخرت میں بہترین بدلہ عطا فرمائے ، آمین۔

احادیث صحیحہ کے مطابق آج قبولیت دعا کا دن ہے اور قبولیت دعا کا وقت بھی داخل ہو گیا ہے ، تو ایک بار پھر اپنے مالک کے سامنے دست دراز ہوں کہ اے اللہ تو نے اپنے فضل و کرم سے کتاب کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا ہے، تو اپنے فضل و کرم سے اس کا نفع بھی ایسے عام و تام فرما دے جیسے بخاری شریف کا فرمایا ہے، اور کتاب کو میرے لیے ذخیرہ آخرت بنا دے، بلاشبہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (ان الله علی کل

شيء قدير)

ناصر حسین دربھنگہ فاضل دارالعلوم دیو بند

شیخ الحدیث مدرسہ حافظیہ عربیہ مظاہر العلوم تال چکور ( ملکی پاژه ) لال باغ مرشد آباد ور محرم الحرام ۵۱۴۴۵، ۲۸ جولائی ۲۰۲۳ء بروز جمعه، به وقت قبيل المغرب

رابطہ نمبر: 9997642253

Al Adiyah Al Mathurah

By Mufti Nasir Husain Qasmi

Read Online

Al Adiyah Al Mathurah By Mufti Nasir Husain Qasmi الادعیۃ الماثورۃ
الادعیۃ الماثورۃ

Download (3MB)

Link 1      Link 2

پرتاپ گڑھ کی اسلامی تاریخ

پرتاپ گڑھ کی اسلامی تاریخ

پرتاپ گڑھ کی اسلامی تاریخ عہد بہ عہد

مرتب: مولانا محبوب الہی محمد قاسمی پرتاپ گڑھی

تحسین و تبریک

شاعر اسلام، نامور محقق و نا قد محترم جناب ڈاکٹر تابش مہدی صاحب

مولانا محمد قاسی پرتاپ گڑھی نئی نسل کے ایک اژین و فطین ، صالح و با عمل اور سنجیدہ عالم دین اور اہل قلم ہیں۔ گرچہ وہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں، دارالعلوم دیوبند کی شاخ مدرسہ انوار القران ستر کھ ضلع بارہ بنکی یوپی کے وہ سر براہ ہیں لیکن تصنیف و تالیف اور وعظ و خطابت سے بھی انہیں طبعی ومزاجی مناسبت ہے، قوم وملت کی اصلاح ورہنمائی سے انھیں خصوصی دل چسپی ہے۔ اس سلسلے میں وہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ سوچتے اور غور کرتے رہتے ہیں۔ اپنی اس سرگرمی و فکرمندی کی وجہ سے جہاں بھی رہے ہیں مقبول ومحبوب رہے ہیں۔ میرا احساس ہے کہ انہیں یہ چیز ورثے میں ملی ہے۔ اُن کے والد محترم ہم سب کے ممدوح و مخدوم مصلح ملت حضرت مولانا شاہ محمد یار پرتاپ گڑھی اپنے عہد کے جید علما ومصلحین میں تھے۔ پرتاپ گڑھ اور دوسرے قریبی اضلاع کے لوگ آج بھی اُن کی ملی و اصلاحی کوششوں اور بے لوث دینی و تربیتی خدمات کو یاد کرتے ہیں ۔ میں اُن کے نیاز مندوں ، نام لیواؤں اور عقیدت مندوں میں رہا ہوں ۔ اُن کی شفقتوں ، عنایتوں اور کرم فرمائیوں کو میں کبھی فراموش نہ کر سکوں گا ۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ہم خردوں کو اُن کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔ برادر عزیز مولانا محمد قاسمی پرتاپ گڑھی زمانہ طالب علمی سے قرطاس و قلم سے اپنا رشتہ جوڑے ہوئے ہیں ۔ تحقیق و تشخص اور تذکرہ وسوانح سے اُنھیں خاص شغف رہا ہے۔ تذکرہ علمائے پرتاپ گڑھ ان کا ایسا کارنامہ ہے ، جو پرتاپ گڑھ کی علمی تاریخ میں ہمیشہ انھیں باقی رکھے گا۔ اُنھوں نے اس کام کے سلسلے میں کہاں کہاں کی خاک چھانی ، کہاں کہاں کتب خانوں میں پہنچ کر ورق گردانی کی اور کن کن علمی و قلمی شخصیتوں سے ملاقاتیں کر کے، ان کی معلومات اور یادداشتوں سے استفادہ کیا ، اس کا صحیح ادراک اُسی کو ہو سکے گا، جس نے اس سلسلے میں کچھ کو چہ گردی کی ہو۔

زیر نظر کتاب ” پرتاپ گڑھ کی اسلامی تاریخ ، عزیز القدر مولا نا محمد قاسمی پرتاپ گڑھی کی ایک اہم اور گراں قدر کاوش ہے۔ عزیز و فاضل مصنف کا یہ ایک ایسا کارنامہ ہے، جس کی ضرورت تو شدت کے ساتھ محسوس کی گئی لیکن قلم کسی نے نہیں اٹھایا۔ اگر کسی نے کبھی ہمت بھی کی تو بس موضوع کی اہمیت اور ناگزیری کا اظہار کیا اور دو چار شنید ہ اور نا تمام باتیں لکھ کر قلم ہاتھ سے گرا دیا۔

زیر نظر کتاب میں مصنف نے سب سے پہلے بڑی تفصیل کے ساتھ پرتاپ گڑھ کا جغرافیائی تعارف کرایا ہے۔ اس کے بعد تحقیق و تنقید کے اُصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے، پرتاپ گڑھ کی قومی بلی اور سیاسی تاریخ پر کسی قدر معلومات افزا گفتگو کی ہے۔ اس ذیل میں اُنھوں نے ہندوستان میں اسلام کی آمد اور عربوں کے اثرات کا بھی جامع تذکرہ کیا ہے۔ بعض مسلم حکمرانوں ، ان کی مدت کار اور اُن کے انداز حکمرانی کا بھی تجزیہ کیا ہے۔ ان چیزوں کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف نے بے شمار مآخذ تک بھی رسائی حاصل کی ہے اور بعض تاریخ دانوں سے بھی استفادہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ عزیز و فاضل مصنف نے پرتاپ گڑھ کی جغرافیائی اور تاریخی حیثیت پر گفتگو اور معلومات افزا بحث کے بعد وہاں رہنے اور بسنے والی سب سے قدیم مسلم برادری قریشی کو اپنی بحث و تحقیق کا موضوع بنایا ہے ۔ یہ برادری پورے ضلع پرتاپ گڑھ اور اس کے بعض قریبی حصوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ اسے بعض مورخین اور تذکرہ نگاروں نے بنو ہاشم میں شمار کیا ہے اور ہاشمی یا قریشی الہاشمی کے لقب سے یاد کیا ہے ۔ تاریخ نگاروں نے حضرت سید سالار مسعود غازی کی جماعت سے بھی اسے منسوب کیا ہے ۔ اس سلسلے میں بعض آثار و قرائن کی بھی نشان دہی کی ہے۔ امیر المومنین حضرت سید احمد شہید اور اُن کے خانوادے کے رجل عظیم مجد د عصر حضرت مولانا شاہ سید محمد امین نصیر آبادی کی اس برادری پر خصوصی توجہ رہی ہے۔ مصنف نے قریشی یا ہاشمی برادری سے حضرت سید نصیر آبادی کے تعلق ، ان کی اصلاح و تربیت اور طریق دعوت وتبلیغ پر بڑی بصیرت افروز گفتگو کی ہے۔ بعض ان علماء مبلغین اور مرشدین کا بھی تذکرہ کیا ہے، جنھوں نے اس برادری کو اپنے انداز رشد و ہدایت سے فیض یاب کیا ہے اور ان کا بھی جو اس برادری سے نسلی و نسبی تعلق رکھتے تھے اور اپنے اصلاحی و تربیتی مشن سے ملت اسلامیہ کے ایک بڑے طبقے کو روشن و منور کیا۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے مخدوم زادے عزیز القدر مولا نا محمد قاسمی پرتاپ گڑھی نے ” پرتاپ گڑھ کی اسلامی تاریخ لکھ کر ایک عظیم اور روشن کارنامہ انجام دیا ہے۔ ملت اسلامیہ خصوصاً پرتاپ گڑھ اور دوسرے مقامات پر بسنے والی قریشی ہاشمی برادری کے علما اور دانش وروں کو اُن کا ممنون و متشکر ہونا چاہیے۔ انشاء اللہ اپنے اس کارنامے کی وجہ سے وہ تادیر یاد کیے جاتے رہیں گے۔ میں اپنے عزیز بھائی محمد بن یار قاسمی پرتاپ گڑھی کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں اور ان کے روشن و تاب ناک علمی مستقبل کے لیے دعا گو ہوں ۔

تابش مهدی

۲۰۲۳/۳/۲۲ء

بیت الراضیه، ابولفضل انکلیو، جامعه نگر نئی دہلی : ۲۵۔

رابطہ : ۹۸۱۸۳۲۷۹۴۷

Partapgarh ki Islami Tareekh

By Maulana Muhammad Qasmi Partapgarhi

Read Online

Partapgarh ki Islami Tareekh By Maulana Muhammad Qasmi Partapgarhi پرتاپ گڑھ کی اسلامی تاریخ

 

Download (3MB)

Link 1      Link 2

 

Differences Between Qadyanis and Other Infidels

Differences Between Qadyanis and Other Infidels

Differences Between Qadyanis and Other Infidels.

Writen by Maulana Muhammad Yusuf Ludhyanvi

Translated by Maulana Muhammad Awais

Confusion and its solution

The key differences between Qadyanis and other infidels will be explained in these pages. There is widespread confusion among certain communities, and they also ask questions to clarify this ambiguity, such as: Why is there an established work in the form of “Aalami Majlis Tahaffuze Khatme Nabuwat” even though there are many other infidels around the world, such as Jews, Christians, Hindus, etc., but only against the Qadyanis? Why does it chase them and alert Muslims of their anti-Islamic activities wherever they go?

There is a distinction between Qadyanis and other unbelievers, which clears up this misunderstanding. Let’s look at an example in this regard before I explain.

It is obvious that drinking is against Islamic law. Alcohol consumption, production, and sales are all prohibited.

Additionally, pigs are known to be Haram (illegal) and Najis al-ain (the Inherently Unclean Thing) in Islamic Laws, making and selling their pork prohibited. This basic and significant rule is known to every Muslim.

There is no doubt that someone who deals in alcohol is guilty. On the other hand, a person who sells alcohol while also adding the Zamzam label to it does so unfairly. Of course, it is illegal to sell alcohol under the name “Zam Zam,” but what makes these two criminals different? You are completely aware of that.

In the same way, a man sells a pig as a pig, he clearly says that it is pork meat. Whoever wants to buy it should take it. Those who buy and sell pigs are criminals according to Islamic rules. But compared to him, there is another person who sells pig and dog meat under the name of goat meat. He is also a criminal, but there is a huge difference in the nature of their crimes.

Read Online

Differences Between Qadyanis and Other Infidels By Maulana Muhammad Yusuf Ludhyanvi

Download (1MB)

Link 1      Link 2

 

آسان تیسیر المنطق

آسان تیسیر المنطق

آسان تیسیر المنطق

تسہیل و تشریح: مولانا غلام رسول

 

Asan Taysir ul Mantiq

By Maulana Ghulam Rasool

Read Online

Asan Taysir ul Mantiq By Maulana Ghulam Rasool آسان تیسیر المنطق

Download (3MB)

Link 1     Link 2

تذکرہ مجاہد الاسلام قاسمی

تذکرہ مجاہد الاسلام قاسمی

تذکرہ فقیہ العصر قاضی القضاۃ مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی

تالیف: مفتی اختر امام عادل قاسمی

Tazkira e Faqihul Asr Qazi ul Quzat Mujahid ul Islam Qasmi

By Mufti Akhtar Imam Adil

Read Online

Tazkira e Faqihul Asr Qazi ul Quzat Mujahid ul Islam Qasmi By Mufti Akhtar Imam Adil تذکرہ فقیہ العصر قاضی القضاۃ مجاہد الاسلام قاسمی

Download (1MB)

Link 1      Link 2

 

صہیونیت اور اسرائیل کا تاریخی پس منظر

صہیونیت اور اسرائیل کا تاریخی پس منظر

تالیف: ابو عمار مولانا زاہد الراشدی

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ

مذاہب دو دائروں میں تقسیم ہوتے ہیں: مذاہب سماویہ اور مذاہب غیر سماویہ۔ مذاہب سماویہ یعنی آسمانی مذاہب وہ ہیں جن کی بنیاد اللہ تعالی کے کسی بچے پیغمبر کی تعلیم اور آسمانی وحی پر ہے۔ سماوی مذاہب میں تین مسلمہ مذاہب ہیں: یہودیت ، عیسائیت اور اسلام۔ آسمانی مذاہب میں سب سے قدیمی مذہب یہودیت ہے۔ یہودیت کی بنیاد حضرت موسٰی علیہ السلام کی تعلیمات اور تورات پر ہے۔

” یہودی لفظ کی نسبت کس کی طرف ہے ؟ بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ نسبت حضرت یہوداہ کی طرف ہے جو حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ ان کی جو نسل چلی وہ یہودی کہلاتے ہیں۔ دوسرے مفسرین نے کہا کہ قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ ارشاد مذکور ہے: انا هدنا اليك . اے اللہ ! ہم آپ کی طرف خلوص و اطاعت سے رجوع کرتے ہیں۔ ہادیہود کا معنی ہے: رجوع کرنا، تو بہ کرنا۔ اسی سے لفظ میہودی نکلا ہے کہ جنہوں نے کفر سے توبہ کر کے اس وقت کا اسلام قبول کیا تھا تو اس نسبت سے یہودی

کہلائے۔ یہودیت کا آغاز :

بنی اسرائیل کا آغاز حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد سے ہوا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کا اصل وطن فلسطین تھا۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام بابل سے ہجرت کر کے فلسطین تشریف لے گئے تو فلسطین کو اپنا وطن بنایا۔ وہیں حضرت اسحاق علیہ السلام کی ولادت ہوئی، جن کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام ہیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے

حضرت یوسف علیہ السلام مصر کے حاکم بنے تو ان کی دعوت پر ان کا سارا خاندان مصر میں آ گیا تھا اور وہاں حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام کے خاندان کی حکومت قائم ہو گئی۔ وہ حکومت صدیوں قائم رہی ہے۔

پھر جیسے دنیا کا قانون اور طریقہ ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے۔ ایک وقت ان کے عروج کا تھا، پھر عروج کے بعد زوال کا وقت آیا تو زوال میں بنی اسرائیل فرعون اور قبطیوں کے غلام بن گئے۔ قبلی وہاں کی علاقائی قوم تھی۔ قبطیوں نے ان پر حکومت قائم کر لی اور بنی

اسرائیل فرعون اور آل فرعون کے غلام بن گئے۔ بنی اسرائیل کا ایک دور یہ تھا۔ فرعون کسی شخص کا نام نہیں ہے، بلکہ فرعون مصر کے حکمران کا خطاب ہو تا تھا، جس طرح ہمارے ہاں صدر اور بادشاہ کا خطاب ہوتا ہے یا جیسے عزیز مصر اور عظیم روم سر دار کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ فراعنہ مصر کا نسل در نسل سلسلہ چلا ہے۔ یہ فراعنہ کا خاندان تھا جس نے حکومت پر قبضہ کر لیا اور حضرت یوسف علیہ السلام کی اولاد اور بنی اسرائیل ان کے غلام بن گئے۔ انہوں نے وہاں بہت مظالم بر داشت کیے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسی خاندان میں حضرت موسی علیہ السلام کو پیدا کیا۔

روایات میں آتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ولادت اور نشو و نما کو روکنے کے لیے فرعون نے ہزاروں بچے قتل کروا دیے تھے، کیونکہ اسے کسی نے بتارکھا تھا کہ بنی اسرئیل میں ایک بچہ پیدا ہو گا جو تمہارے لیے زوال کا باعث بنے گا، لیکن اس کے باوجود حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے ہاں ہی پرورش پائی۔ جوان ہوئے تو اللہ تعالی نے

نبوت سے سرفراز فرمایا۔

Sahyuniyat aur Israel ka Tarikhi Pas e Manzar

By Maulana Zahid ur Rashdi

Read Online

Download (1MB)

Link 1      Link 2

سیکولرازم كا تعارف اور تباہ کاریاں

سیکولرازم كا تعارف اور تباہ کاریاں

سیکولرازم كا تعارف اور تباہ کاریاں۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ سیکولرازم نظریہ شاید نیا نظریہ ہے، حالانکہ یہ بات غلط ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے یہ جان چکے ہیں کہ سیکولرازم کی بنیاد آخرت کی نفی، اور کسی بھی آسمانی دین و مذہب کی عدم مداخلت پر رکھی گئی ہے، تو یہ دنوں نظریات ہمیں نزول قرآن کے زمانے میں مشرکین مکہ میں بھی نظر آتے ہیں۔بلکہ اس سے پہلے نمرود و فرعون کے زمانے میں بھی ہمیں یہ نظریہ قرآنی واقعات میں نظر آتا ہے۔بس فرق اتنا ہے کہ اس وقت سیکولرازم لفظ موجود نہیں تھا، چند صدیاں قبل یورپ میں یہ لفظ اس نظریے پر بولا جانے لگا۔

سیکولرازم كا تعارف اور تباہ کاریاں

Introduction and Definition of Secularism

آن لائن پڑھیں

ڈاون لوڈ کریں

قانون مفرد اعضاء اور طب یونانی کی کتب

آکسفورڈ اردو انگلش ڈکشنری

آکسفورڈ اردو انگلش ڈکشنری

Oxford Elementary Urdu English Dictionary

 

آن لائن پڑھیں

ڈاون لوڈ کریں

سیکولر ازم كا تعارف و ارتقاء اور مسلم دنیا پر اثرات

سیکولر ازم كا تعارف وارتقا اور مسلم دنیا پر اثرات

سیکولرزم (Secularism) کا اُردو معنیٰ ’لادینیت‘ ہے۔ سیکولر زم ’ایسی دُنیویت کو بھی کہتے ہیں جس کا آخرت یا دین سے کوئی تعلق نہ ہو‘۔ سیکولر انسان ’وہ ہوتا ہے جو مذہبی نہ ہو‘۔ سیکولر نظریہ ’وہ ہے جو دین یا مذہبی پیشوائیت کا پیش کردہ نہ ہو۔‘

انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا کے مطابق :

’’سیکولرزم ایک اجتماعی تحریک ہے جس کا مقصد لوگوں کو آخرت کی توجہ سے یکسر ہٹا کر فقط دنیا کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ ‘‘

امریکی انسائیکلوپیڈیا کے مطابق :

’’سیکولرزم ایک ایسا اخلاقی نظام ہے جو آسمانی ادیان سے ہٹ کر اپنے اُصول وقواعد رکھتا ہے۔ ‘‘

سیکولرزم کا ایک معنی ہے :   فَصْلُ الدِّیْنِ عَنِ الدَّوْلَةِ اَوِ الْمُجْتَمِعِ

دین کو معاشرہ یا ریاست سے جدا کرنا

معاشرہ یا ریاست کو دین کے علاوہ کسی چیز پر اُستوار کرنا

دین کو عملی زندگی سے الگ کرنا یا عملی زندگی کو غیر دینی بنیادوں پر قائم کرنا۔

سیکولرزم کی بڑی بڑی اقسام یہ ہیں:

سیکولر سیاست جیسے مغربی جمہوری نظام یا کمیونزم

سیکولر معاشرت جیسے مرد وزَن کی مغربی مساوات ،حقوقِ نسواں کے مغربی تصورات

سیکولر اقتصاد جیسے مغربی سرمایہ دارانہ نظام یا سوشلزم

سیکولر تعلیم جو دینی اہداف وطریق کار سے آزادہو، جو وحی کو حجت تسلیم نہ کرے

سیکولر اخلاق جو انسان کے لیے کسی بھی مستقل قدر کو تسلیم کرنے سے انکار کرے

سیکولر فن واَدب جیسے رومانویت، واقعیت اور لامعقولیت کے ادبی فنی مکاتبِ فکر وغیرہ

بعض لوگوں کاخیال ہے کہ ’’سیکولرزم ایک سائنسی طرزِ فکر ہے جو مذہب سے ہٹ کر سوچنا سکھاتی ہے۔ مذہب جن اُمور میں خاموش ہوتا ہے یا براہِ راست کوئی راہنمائی نہیں کرتا، وہاں پر غیر مذہبی یعنی سائنسی انداز سے سوچنا سیکولرزم ہے اور یہ دین کے منافی نہیں۔‘‘ سیکولرزم کا یہ معنی انتہائی محدود ہے اور کئی قسم کے مغالطوں کا مجموعہ ہے۔

Introduction and Evolution of Secularism and Effects on the Muslim World

ڈاون لوڈ کریں

سیکولرازم كا تعارف اور تباہ کاریاں

قواعد و ضوابط امتحانات وفاق المدارس

قواعد و ضوابط امتحانات وفاق المدارس

Qawaid wa Zawabit e Imtihanat Wifaq ul Madaris

Consensus and communication between the scholars, uniformity in the education system and uniformity in the examinations and curriculum have a key position in the goals and objectives of the federated schools. More than 600,000 male and female students from Madrasahs and Universities across the country participate in these exams every year. Administratively, it is a difficult task that from Khyber to Karachi and from Quetta to Gilgit, the students of all madrassas and universities gather on a fixed date and at a fixed time in the designated centers and give the exam in such a way that the question papers are completed at the same time. It reaches the hands of the students of the country. The invigilators and assistant invigilators in the federal school examinations are strangers and honest scholars. From which no illegitimate benefits can be imagined. Students solve the paper only with their own personal ability. As soon as the scheduled time of the examination is over, the invigilators of each center seal the bundles of all the papers and register them with the federal office at the same time. Despite all its resources, the government, due to administrative difficulties, sets up separate education boards in each division, which conduct examinations for one class at a time. But Alhamdulillah, the Federation of Schools at the national level conducts the examination of all grades at the same time and announces the results within a month. There is no possibility of any student or madrassa being discounted in this safe and reliable system of examinations of Federated Schools. Therefore, along with the famous and well-known universities, the students of unknown and unknown madrassas also continue to get a distinguished position.
Alhamdulillah, contemporary institutions are also jealous of the federal examination system. This wonderful system is due to the strict implementation of the rules and regulations by the examiners.
Alhamdulillah Akabar Federation has laid down the rules and regulations for the examination system from the beginning, and from time to time the Board of Directors and the Examination Committee have been revising and modifying them. Thanks to the implementation of these rules, the excellent examination system was established, which is the reason why contemporary institutions are also jealous of the federal examination system.
Maulana Abdul Majeed and his assistant Muhammad Saifullah Naveed have reorganized the examination rules and regulations of the grade books and the authorities have established a procedure for payment of examination expenses to facilitate the examination. The relevant forms have also been included, with this effort, the institution’s reputation will increase with transparency in the examination and payment system.
Federal regulators and all officials are requested to train the supervisory staff in the light of these rules and regulations and ensure compliance with them and ensure payment of expenses and use the given forms for payment of expenses.
The rules and regulations related to school examinations have been laid down and the procedure for payment of examination expenses has been laid down. Also, relevant forms have also been included. Officials should ensure compliance with the rules and regulations and train the supervisory staff according to the same rules and regulations.

Read Online

Download (1MB)

Link 1      Link 2

دورہ حدیث نصاب اردو شروحات

اصلاحی مضامین و مقالات

اصلاحی مضامین و مقالات

مضامین و مقالات

عقیدہ ختم نبوت اور ہماری ذمہ داری

بیماری اور مزاج پرسی ؛ آداب و احکام جنازے اور تدفین میں شرکت ؛ آداب و احکام

سلام اور اسلام

مسلمان کے ساتھ خیر خواہی

دعوت قبول کرنا مسلمان کا حق چھینک اور جماہی کے آداب

استنجے کے آداب اور احکام لباس کے آداب اور اس کے شرعی حدود

جمعہ کے دن کی سنتیں

حج ایک عاشقانہ عبادت

امانت کی اہمیت اور حفاظت

قربانی اور احکام ذی الحجہ

صلوۃ الحاجت کی فضیلت، اہمیت اور ضرورت

قربانی اور عقل انسانی

قربانی پر کیے جانے والے شبہات اور ان کے جوابات

تجدد پسند اور روشن خیال حضرات کی خام خیالیاں قربانی سے متعلق غیر مقلدین کے شبہات

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے کثرت تصانیف کے ظاہری اسباب

مؤلف

مفتی عبد اللطيف قاسمی

جامعة غيث الهدى بنتكور

د ۱۷ ۲۴۷۵۵۴

كُنْخَانَهُ نِعَمَيَّة ديوبند

Islahi Mazameen wa Maqalat

By Mufti Abdul Latif Qasmi

Read Online

Download (2MB)

Link 1       Link 2

عقیدہ ختم نبوت اور ہماری ذمہ داری۔ بیماری اور مزاج پرسی آداب و احکام۔ جنازے اور تدفین میں شرکت آداب و احکام۔ سلام اور اسلام۔ مسلمان کے ساتھ خیر خواہی۔ دعوت قبول کرنا مسلمان کا حق۔ چھینک اور جماہی کے آداب۔ استنجے کے آداب اور احکام۔ جمعہ کے دن کی سنتیں۔ حج ایک عاشقانہ عبادت۔ صلوٰۃ الحاجت کی فضیلت، اہمیت اور ضرورت۔ لباس کے آداب اور اس کے شرعی حدود۔ امانت کی اہمیت اور حفاظت۔ قربانی اور احکام ذی الحجہ۔ قربانی اور عقل انسانی۔ قربانی پر کیے جانے والے شبہات اور ان کے جوابات۔ تجدد پسند اور روشن خیال حضرات کی خام خیالیاں۔ قربانی سے متعلق غیر مقلدین کے شبہات۔  حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے کثرت تصانیف کے ظاہری اسباب۔

از مفتی عبد اللطیف قاسمی

طب یونانی کی پوری لائبریری

تقلید کے شکار

تقلید کے شکار

حامدا ومصليا

حرفے چند

یہ کوئی مستقل کتاب نہیں، بلکہ کتاب چہ بھی نہیں محض ایک مختصر سا مضمون ہے، جو میرے مشفق و کرم فرما جناب حافظ ادریس صاحب قریشی ندوی کے حکم پر تحریر کیا گیا ، انھوں نے ایک ویڈیو کلپ بھیجا، جو اہل حدیث کے تعارف پر مبنی ہے، حافظ صاحب نے مجھ سے اس کا جواب آڈیو فورمیٹ میں بنانے کو کہا تھا، میں نے اس کا یہ جواب آڈیو میں ہی بھیج دیا تھا، پھر محسوس ہوا کہ اس مضمون کو کتا بچہ کی شکل میں محفوظ کرنے سے اس کا فائدہ بھی دو چند ہوگا اور انشاء اللہ یہ دیر پا بھی رہے گا ، اسی احساس کے پیش نظر اس کا یہ ایڈیشن شائع کر دیا۔ اہل حدیث کے تعارف پر مبنی یہ ویڈیوکرمی جناب شیخ عبدالحنان صاحب دامت برکاتہم سامرودی کا ہے جو کراچی کے بروج انسٹی ٹیوٹ میں تفسیر وحدیث کے استاذ ہیں، مجھے بروج کی لمی ویب سائٹ پر تو یہ ویڈیو نہیں ملی، البتہ بروج انسٹی ٹیوٹ کے یو ٹیوب چینل پر یہ ویڈیو سوال وجواب کے عنوان سے تقریباً دس منٹ کی موجود ہے، پونے سات منٹ میں انھوں نے اہل حدیث کا تعارف بیان کیا ہے، اس مضمون اسی پر چند گذارشات پیش کی گئی ہیں۔ آڈیو والی گفتگو میں چند ترامیم واضافات بھی کئے گئے ہیں لیکن ان سے نفس مضمون پر کوئی بڑا فرق نہیں پڑا، کتاب کی سیٹنگ، یا کسی جملے کی وضاحت کیلئے ان کو بڑھایا گیا ہے کتاب کی زبان و بیان سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کا مقصد شیخ حنان صاحب دامت برکاتہم پر تنقید برائے تنقید نہیں، بلکہ ایک اصولی گفتگو ہے، میں خود بین المسالک وسعت ذہنی کا حمایتی ہوں ، مسلک کے سلسلے میں تشدد یا جمود کو ، حدیث کے مقابلے میں تقلید کے لزوم کو غلط نا جائز و حرام سمجھتا ہوں، دین کا اصل سرچشمہ قرآن وسنت کو قرار دیتا ہوں، فقہ کو اسی تصریح کہتا ہوں ، نہ کہ دین حنیف کی کوئی الگ شق ، فقہ اور فقیہوں کے تمام دعوؤں اور موقفات کو اسی ترازو میں تو لنا لازم سمجھتا ہوں، اسی معیار پر پرکھنے کو واجب جانتا ہوں ، اور جہاں وہ اس معیار سے الگ ہوتے ہوں وہاں خود بھی ان سے علیدگی اختیار کرنا فرض سمجھتا ہوں، لیکن اس سلسلے میں تقلید کو قطع راہ نہیں دیتا، یعنی میں کسی دوسرے کے کہہ دینے بھر سے اپنے موقف سے نہیں ہٹتا بلکہ خودا حادیث کا تتبع کرتا ہوں۔

ہاں میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ یہ کام ہر شخص کا نہیں ہے کہ وہ مکمل علم حدیث حاصل کر کے خود مجتہد بنے ، یہ امر ممکن بھی نہیں، ضروری بھی نہیں اور مفید تو قطعا نہیں ، خود نبی کریم صلای سی ایلم کے زمانہ میں صحابہ کرام ایک دوسرے سے مسائل معلوم کیا کرتے تھے، اور صحابہ کرام کی جماعت میں بھی ہر شخص نہ تو فقیہ تھا، نہ مفسر اور نہ محدث ، ان کے الگ الگ میدان تھے، کوئی جنگی میدان کا شہسوار تھا، کوئی امن و صلح میں فنکار، کوئی تجارت کے میدان کا ماہر تھا، کوئی زہد وریاضت میں طاق ، کوئی وعظ و تقریر میں جادو جگاتا تھا، توکوئی شعر و شاعری میں مشاق، کوئی علمی میدان میں بے نظیر تھا، تو کوئی سیاسی تدابیر میں بے مثال، پھر علمی میدان والوں کی بھی الگ الگ فیکلٹیاں تھیں، بعض علم تفسیر میں ممتاز تھے، بعض علم فقہ میں ، بعض حفظ حدیث میں نرالے تھے بعض علم قرآت میں یکتا ، تو کوئی قضا میں لا جواب تھا، ان تمام لوگوں کا مرجع و ماوی ایک ہی تھا، ذات رسول صل الی ہیں ، یہ سب اسی ایک سرچشمہ سے نکلنے والی دھار میں تھیں، سب ایک دوسرے سے استفادہ کرتے تھے ، ایک دوسرے کو مانتے تھے سراہتے تھے۔

معلوم ہوا کہ جس طرح قرآنی علوم زمانہ رسالت سے چلے آرہے ہیں اسی طرح ایک دوسرے سے استفادہ کا رواج و طریقہ بھی اسی وقت سے چلا آرہا ہے، اور اسی کا نام تقلید ہے، اگر چہ یہ نام اس وقت نہیں تھا، نہ اس وقت چار امام تھے، نہ چار حدیث لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ اس وقت یہ عمل بھی موجود نہ ہو، نام کے ساتھ موسوم ہونا، ترتیب کے ساتھ مرتب ہونا، اور تدوین کے لحاظ سے مدون ہونا، یہ سب بعد میں ہوا، بعد میں ہی حنفی بنے ، شافعی بنے ، اور بعد میں ہی وہابی بھی پیدا ہوئے ، نام اور اپنے مدون اصولوں کے ساتھ ان کے یہ الگ الگ گروہ یقیناً بعد میں بنے ، لیکن تمام کی اصل وہی ہے، سر چشمہ وہی ہے، البتہ جو اس سلسلے میں تشدد کرے، دوسروں کی تنقیص کرے، ان کی تحقیر کرے، دوسرے کے مسلک کو سیدھا سیدھا بے دینی کہے، حدیث کے خلاف سنت سے دور قرار دے، جیسا کہ آج کل کے اکثر مجدی علماء و عوام کر رہے ہیں، تو وہ یقینا راہ صواب سے دور ہے، چاہے وہ کسی بھی فرقہ سے تعلق رکھتا ہو، اور کیسا ہی خوبصورت نام کیوں نہ اختیار کرلے۔

حالانکہ تقلید سے مبرا کوئی نہیں ، ہاں ائمہ گرام کی تقلید سے ضرور دامن جھاڑ سکتے ہیں لیکن تقلید کا مسئلہ عقائد کے اندر شامل نہیں، ہم نہیں کہہ سکتے کہ جوشخص تقلید کو ناجائز کہتا ہے اسکے ایمان میں کوئی کمی ہے لیکن ہم یہ بھی نہیں مان سکتے کہ جوائمہ گرام میں سے کسی کی تقلید کرتا ہے وہ مومن نہیں رہتا، یا وہ بے دین ہو جاتا ہے، یا اسے رسول سیلی یہ اہم یا احادیث کا مخالف کہا جانا چاہئے ، یہ تمام باتیں لغو اور امت میں خلفشار وفتنہ کا سبب ہیں، مسالک کے درمیان اختلاف ہو جانا بالکل فطری امر بلکہ ایک ناگزیر ضرورت ہے، اور یہ اختلاف امت کیلئے رحمت ہے لیکن ایسا اسی وقت تک ہے جبکہ یہ اختلاف بغض و عناد، فتنہ وفساد تک نہ پہنچے، جب تک علمائے کرام ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرتے رہیں، اور اختلاف کو ایماندارانہ طور پر، خالص دینی فکر کے تحت قائم رکھیں ، اس میں نہ اپنی ہٹ دھرمی کو جگہ دیں، نہ کسی سے خدا نا واسطے عناد کو عمل میں لائیں ، علمائے امت کے لئے کرنے کے اور بہت سے کام ہیں، ان میں ہی اپنی صلاحیت و وسائل کو صرف کریں ، نہ کہ امت کے درمیان اختلاف کی آگ دہکانے میں۔ یہ مختصر کتابچه ای جذبہ کے تحت رقم کر گیا ہے کہ اسلاف کی طرح ہم ایک دوسرے کا احترام کریں، ایک دوسرے کے اختلاف کا بھی احترام کریں، اختلاف کو قبول کریں، اسی کا نام باہمی اتحاد ہے، عدم اختلاف کا نام اتحاد نہیں ، بلکہ وجود اختلاف کے باوجود باہم دست وگریبان نہ ہونے کا نام اتحاد ہے، اللہ تعالیٰ اس مختصر کاوش کو قبول فرمائے ، اور امت مسلمہ کے علمائے کرام کو باہم شیر وشکرفرمادے۔آمین

والصلاة والسلام على سيدنا محمد وآله وصحبه أ

أجمعين

عمران علی مظاہری

۲۵/شعبان ۱۴۴۲ ، ۸ را پریل ۲۰۲۱ م

Taqleed ke Shikar

By Maulana Muhammad Imran Ali Mazahiri

Read Online

Download (1MB)

Link 1      Link 2

توجہ فرمائیں

توجہ فرمائیں

ای اسلامک بک ویب سائٹ آپ کو عرصہ چھ سال سے مفت آن لائن کتابوں کی سہولت فراہم کر رہی ہے۔ جس کی ڈومین، ہوسٹنگ اور منیجمنٹ پر سالانہ دو لاکھ سے زیادہ کا خرچہ آتا ہے۔ 

حالیہ عرصہ میں ویب سائٹ کو جاری رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ جس کی وجہ سے آج چھ سال بعد پہلی بار ہم آپ سے تعاون کی اپیل کر رہے ہیں۔

اس صدقہ جاریہ کو جاری رکھنے کے لیے آپ کے بھیجے ہوئے سو یا پچاس روپے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ تعاون کرنے کے لیے اس وٹس اپ نمبر پر رابطہ کریں:

https://wa.me/+923215083475

توجہ فرمائیں eislamicbook healp

اصول الفقہ

اصول الفقہ

بسم الله الرحمن الرحیم

مقدمه مؤلف

الحمد لله وكفى سلام على عباده الذين اصطفى، أما بعد! زیر نظر کتاب اسلامی و عربی علوم وفنون کے سلسلہ تسہیل کی ایک کڑی ہے، اشاعت کے اعتبار سے اس سلسلہ کی چھٹی اور اس سلسلہ میں احقر کی شرکت و شمولیت

کی دوسری کڑی ہے۔ بانی جامعہ عربیہ ہتھورا، بانده، سیدی و سندی حضرت مولانا صدیق احمد صاحب مدظلہ جو اس فکر کے داعی اور سلسلہ کی اکثر کتب کے مؤلف ہیں، حضرت موصوف کو علم بلاغت اور علم اصول فقہ میں خاص طور سے اس کام کی فکر تھی اور احباب سے اس کا ذکر و تقاضا فرماتے رہتے تھے ، احقر نے اس تقاضے سے تاثیر کے تحت، پہلے مرحلہ میں بلاغت پر کام کیا جو الحمدللہ تسہیل البلاغۃ“ کے نام سے مطبوعہ صورت میں

دستیاب ہے۔

دوسرے مرحلے میں اس کام کو انجام دینے کی سعادت حاصل کی، جس کے آغاز پر چند سال کا عرصہ مکمل ہونے اور اس عرصہ میں کام کے مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد اب الحمد للہ اس کی طباعت اور اشاعت کی نوبت آرہی ہے ، اور اس امید کے ساتھ کہ احقر نے اس کے ساتھ ساتھ اصول حدیث پر جو اسی انداز کا مجموعہ ترتیب دیا ہے، انشاء اللہ جلد اس کی اشاعت کا نمبر آجائے گا، اور پھر کیا بعید ہے کہ آخری کڑی ”اصول تفسیر پر بھی کچھ کا وش و کوشش کی توفیق ہو جائے اور یوں یہ سلسلہ

و جنامه مسك كا مصداق قرار پائے ، وما توفيقي إلا بالله

کتاب کی موجودہ صورت میں جو اشاعت پذیر ہورہی ہے، یہ اس کی تیسری حیض کا نتیجہ ہے، اونی معلومات و مواد جمع کرنے کے بعد تبیض کی اور استاذی مولانا محمد زکریا صاحب استاذ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو کی خدمت میں پیش کیا، انھوں نے تحسین کے ساتھ کچھ مشورے دیئے ، پھر دوسری مرتبہ تبیض میں لگا ، اور تکمیل کے بعد مزید توفیق و اعتماد کے لیے مکرمی مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری استاذ دارالعلوم دیوبند کی خدمت میں مجموعہ کو پیش کیا، انھوں نے بھی سرسری نظر سے ملاحظہ فرما کر تحسین کی ، اس عرصہ میں ایک کاپی کرمی و منظمی حضرت مولانا محمد تقی صاحب عثمانی (کراچی) کی خدمت میں پہنچی اور انھوں نے بڑی ہمت افزائی فرمائی ، البتہ اس وقت تک کے کام میں یہ خامی تھی کہ مسائل کے ساتھ حوالہ جات کا اندراج نہیں تھا، کچھ خود داعیہ ہوا ، کچھ بعض اکابر کی تاکید ہوئی اور اس کام کی طرف متوجہ ہونا پڑا، اور اس کے لیے از سر نو تمام مراجع کو جمع کر کے سارے مباحث کو کھنگالنا پڑا اور بالآخر بتوفیق خداوندی حوالہ جات کے ساتھ تیسری تبعیض تکمیل کو پہنچی۔

اس مجموعہ میں ابتدائی مراحل سے لے کر انتہائی مراحل تک تدریس و تصنیف سب لائنوں میں عموماً جو اصول سامنے آتے رہے ہیں، ان سب کو جمع کرنے کی سعی کی گئی ہے، تا کہ کتاب بہتر سے بہتر تعارف کا ذریعہ بن سکے اور اس کے مباحث صرف اصول کے بیان یعنی ان کی تعریفات ، احکام، امثلہ اور اقسام و بعض ضروری توضیحات و تفصیلات پر مشتمل ہیں، نہ اختلافات کا ذکر ہے اور نہ دلائل کا، احناف کے مختلف فیہ اقوال میں سے بھی حسب رجحان یا حسب اختیار فقہاء کسی ایک کو لے لیا گیا ہے۔ اس مجموعہ کی تالیف میں ایک خاص انداز اپنایا گیا ہے، جو ایسے علوم وفنون کے حق میں زائد سے زائد سہولت پر مشتمل اور سودمند سمجھا گیا ہے، جیسے عبارت میں الجھاؤ سے بچنے کی سعی کی گئی ہے، ترتیب عبارات میں بھی اس کا خاص لحاظ رکھا گیا

Usool ul Fiqh

By Maulana Ubaidullah Asadi

Read Online

Download (4MB)

Link 1      Link 2

تحکیم اور جرگہ

تحکیم اور جرگہ

Tahkeem aur Jarga By Mufti Ubaid ur Rahman

Read Online

Tahkeem aur Jarga By Mufti Ubaid ur Rahman تحکیم اور جرگہ

Download (1MB)

Link 1       Link 2

اصول طب

اسمائے حسنی ایک تحقیقی جائزہ

اسمائے حسنی ایک تحقیقی جائزہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تقدیم

حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی ، دار العلوم وقف دیوبند اسمائے حسنیٰ

ایک تحقیقی جائزہ

اسمائے حسنیٰ کی عظمت و اہمیت مسلم معاشرے میں ایک حد تک معروف ہے ، اسی کے تحت ابتدائی مکاتب میں حفظ قرآن کریم کے ساتھ اسمائے حسنیٰ یاد کرانے اور روزانہ ان کو پڑھوانے کا مفید و کارآمد معمول بھی ہے ، ایسے ہی اوراد و وظائف سے دلچسپی رکھنے والے حضرات بھی اسمائے حسنیٰ سے استفادہ کرتے ہیں ، اسی طرح علماء کرام بھی اپنے مواعظ میں اسمائے حسنیٰ کے فضائل بیان کر دیتے ہیں، ان تمام معمولات کے باوجود عمومی طور پر عوام کا تو کیا علما کا ذہن بھی اس طرف ملتفت نہیں ہوتا کہ اسمائے حسنیٰ کے بارے میں کچھ علمی وحل طلب مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں۔

چنانچہ پہلا سوال تو یہی قائم ہوتا ہے کہ اسمائے حسنیٰ ۹۹ ہی ہیں یا کم وبیش کا بھی احتمال ہے؟ دوسرے یہ کہ یہ ۹۹ اسمائے حسنیٰ قرآن کریم بھی موجود ہیں یا نہیں؟ نیز یہ کہ اسم ذات اللہ ۹۹ اسمائے حسنیٰ میں شامل ہے یا زائد ہے؟

اگر یہ شامل ہو تو اسمائے حسنیٰ کی تعداد 99 کے بجائے ۱۰۰ ہو جاتی ہے جبکہ ابو ہریرہ کی روایت بخاری میں ہے کہ نبی کریم صلی السلام نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے ۹۹ نام ہیں یعنی ایک کم سو، اس سے معلوم ہوتا ہے اسم اللہ ان ۹۹ میں شامل نہیں ہے ، اور حدیث مبارک: إِنَّ الله وِثر يُحِبُّ الْوِثر کے تحت بھی ۹۹ ہی وتر ہے ، ۱۰۰ وتر نہیں ہے ، دوسرے نکتہ نگاہ سے دیکھیں تو اسم اللہ وتر ہے، اور ۹۹ کا عدد الگ ایک وتر ہے تو اس سے مفہوم یہ ہی نکلتا ہے کہ اسم ذات اللہ ۹۹ اسمائے حسنیٰ سے الگ ہے، اس علیحدگی سے دونوں کی و تربیت بھی قائم رہتی ہے اور عدد 99 بھی۔ لیکن پھر سوال یہ ہے کہ قُلِ ادْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَنَ میں رحمن کو ذکر ا الله کے مساوی قرار دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسمائے حسنیٰ میں ذاتی اور صفاتی کی تقسیم نہیں ہے، جبکہ اہل علم ذاتی اور صفاتی کی تقسیم مانتے بھی ہیں اور بتلاتے بھی ہیں۔ نیز یہ بھی ایک سوال کی صورت اختیار کرتا ہے کہ اسمائے الہی کا 99 میں حصر نہیں ہے، بلکہ ارشاد نبوی کا مقصد یہ ہے کہ ان ۹۹ کا پڑھنا جنت میں داخلے کا اہم وسیلہ ہے، جبکہ بعض ارباب علم کے اقوال یہ بھی ہیں اسمائے الہی کا حصر ۹۹ ہی ہے اس میں اضافہ ناجائز ہے، جس پر مرآۃ الا واحدۃ کی تصریح واضح دلیل ہے۔

پھر اس کے برخلاف ایسی روایات بھی ہیں کہ جن سے ۹۹ میں اسمائے الہی کا حصر

مفہوم نہیں ہوتا بلکہ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ۹۹ سے کہیں زیادہ ہیں۔ پھر قرآن کریم میں مذکور افعال الہی سے اسماء کا اشتقاق بھی صحیح نہیں ہے، اس لئے کہ بعض افعال ایسے بھی ہو سکتے ہیں کہ جن سے مشتق اسم اللہ رب العزۃ کی عظمت و جلال

کے خلاف ہو ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسمائے الہی وہی صحیح ہیں کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے

اپنے نام سے موسوم فرمایا ہے۔

پھر بات یہیں آ کر ٹھہرتی ہے کہ ان اسمائے حسنیٰ کی تعداد ۹۹ ہی ہے جن کو یاد کرنے پر جنت کی بشارت دی گئی ہے، جس کی تاکید نبی کریم صلی یا یہ ہم نے یہ کہ کرفرمائی ہے کہ اللہ کے نام ایک کم سو ہیں، اس سے ۹۹ کی تاکید مزید ہو جاتی ہے۔

اور عبدالرزاق الرضوانی کا یہ قول کہ اللہ کے بہت سے ایسے نام لوگوں کی زبان زد ہیں جو حقیقہ اللہ کی صفات یا افعال ہیں ، اسماء نہیں ہیں ، اور اسلاف صالحین کی روش سے بھی یہی مفہوم ہوتا ہے کہ اسمائے الہی توقیفیہ ہیں جس میں عقلی اجتہاد کے ذریعہ اسکے اوصاف یا افعال سے اسماء مستنبط کرنا صحیح نہ ہوگا، لہذا اسمائے الہی کی توقیفیت اس امر کی

متقاضی ہے کہ ان ۹۹ اسمائے الہیہ پر دلائل قرآنیہ موجود ہوں۔

اللہ رب العزة کی صفات و افعال بے شمار قرآن کریم میں مذکور ہیں ، ان سے اشتقاق کرنے سے اسمائے الہی بے شمار ہو جاتے ہیں ، جیسا کہ اس قسم کے اسماء بعض کتب حدیث میں لکھے ہوئے بھی ہیں لیکن علمائے حدیث نے جس روایت کی بنا پر پر یہ اسماء مشتق کئے گئے ہیں اس کو غیر ثابت اور ضعیف تسلیم کیا ہے، لہذا اس سے بھی صفات

یا افعال سے اسماء کا اشتقاق صحت کو نہیں پہنچتا۔ ساتھ ہی یہ حقیقت بھی لائق ذکر ہے کہ ۹۹ اسماء الہیہ ( بالاستیعاب) نه قرآن کریم میں وارد ہیں اور نہ کسی صحیح حدیث میں موجود ہیں۔

کتاب ہذا میں ان تمام سوالات پر انتہائی شافی و کافی مکمل و مدلل جوابات جمع فرمائے گئے ہیں، اور ساتھ ہی مؤلف محترم مولانا محمد عمران صاحب مظاہری نے قرآن و حدیث سے ماخوذ ۹۹ اسمائے الہیہ بھی اس کتاب میں تحریر فرمادے ہیں ، کتاب کی علمیت ، صحت اور پیش آمدہ سوالات کے جوابات کی مدللیت نے اس کتاب کی افادیت کو انتہائی وقیع ، قابل قدر اور لائق شکر بنا دیا ہے، جس کو پڑھ کر اسمائے حسنیٰ کے متعلق نہ صرف مسائل معلومہ کا علم صحیح ہی حاصل ہوتا ہے بلکہ ان کے پر تاثیر فضائل کو پڑھنے کے بعد ان کو پڑھنے کی توفیق بھی ہونے لگتی ہے، حق تعالیٰ مؤلف محترم کے علم میں ، اخلاص

میں ، اعمال میں ، طاعات و عبادات میں بے حساب برکات و مقبولیت ارزانی فرمائے۔ امید ہے کہ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ہر قاری اسمائے حسنیٰ پڑھنے کے لئے انشاء اللہ موفق بھی ہوگا ، اور سب کی توفیقات کے اجر و ثواب میں انشاء اللہ مؤلف محترم عند اللہ

شریک و سہیم بھی رہیں گے۔

وفقه الله لخدمة الإسلام والمسلمين فى المستقبل أهم و أكثر من ذى

قبل والله الموفق والمعين

( حضرت مولانا ) محمد سالم (صاحب) قاسمی

۲۵ شعبان ۱۴۳۴ھ ۵/ جولائی ۲۰۱۳ ء یوم الجمعه

Asma e Husna Ek Tahqiqi Jaiza

By Maulana Muhammad Imran Mazahiri

Read Online

اسمائے حسنی ایک تحقیقی جائزہ

Download (11MB)

Link 1      Link 2

مولانا محب الحق نقوش و تاثرات

مولانا محب الحق نقوش و تاثرات

بسم اللہ الرحمن الرحیم

افتتاحیه

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على سيد الأنبياء وأشرف المرسلين، وعلى آله وصحابته أجمعين. وبعد والد گرامی حضرت مولانا محب الحق رحمہ اللہ کی ۶۵ سالہ حیات مستعار تدریس و تالیف تحقیق و ترتیب، اصلاح و تربیت، دعوت و تبلیغ اور عبادت وریاضت سے معمور تھی ، وہ اپنے مشن اور مقصد میں ہمہ تن مصروف تھے، اپنے استاد گرامی قدر مفتی نسیم احمد فریدی امروہی کے علوم و معارف کی جمع و ترتیب، تدوین و تالیف اور نشر واشاعت، ان کی زندگی کے اہم مقاصد میں سے ایک تھا، جس کے لیے انہوں نے اپنی تمام تر توانائیاں، صلاحیتیں اور زندگی کے شب و روز وقف کر دیے، اخیر کے سالوں میں والد صاحب کے یہاں تصنیف و تالیف کا عمل تیزی سے رواں دواں تھا، تقریبا ہر سال کوئی نہ کوئی کتاب طباعت سے آراستہ ہو کر منصہ شہود کی زینت بن جاتی ؛ ذاتی طور پر مجھے خود اس پر مسرت آمیز تعجب ہوتا، چوں کہ ظاہری احوال کے پیش نظر دل میں کبھی یہ بات نہیں آئی کہ ان کی زندگی اپنے آخری مراحل میں ہے؛ لہذا ازل سے طے شدہ ضروری کاموں کی تکمیل کے لیے غیبی منصوبہ بندی کے تحت تیز گامی اور تیز رفتاری کی یہ ہمیز لگائی گئی ہے۔

والد محترم کی صحت اچھی تھی کسی مہلک اور خطر ناک بیماری کے شکار نہیں تھے، لہذا دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ تصنیف و تالیف کا محبوب مشغلہ اپنی سابقہ رفتار کے ساتھ جاری وساری تھا، اپنے استاد مکرم مفتی نسیم احمد فریدی امروہی کی ایک جامع مفصل اور مستند سوانح حیات تصنیف فرمارہے تھے کہ اچانک ۱۵ شوال المکرم ۱۴۳۴ھ مطابق ۲۳ / اگست ۲۰۱۳ء کی رات کو ان پر دل کا شدید حملہ ہوا اور ایک ہفتہ کے اندر ہی اس عالم فانی سے عالم جاودانی کی طرف رحلت فرما گئے ۔ إنا لله وإنا إليه راجعون! حضرت مولانا محب الحق نے اپنے اخلاق واوصاف، معاملات و معاشرت، عبادت وریاضت، خیر خواہی و ہمدردی، اطاعت شعاری و وفاداری، اصلاح و تربیت اور تصنیف و تالیف کے لحاظ سے ایک مثالی زندگی گزاری ، چناں چہ عزم و ہمت ، صبر و شکر، قناعت و خود داری بیم جد وجہد مسلسل کام کی دھن اور لگن، عبادت وریاضت، تعلیم پیہم و تربیت، تحقیق و تصنیف، اخلاص وبے نمائی، اعلی اخلاق اور اپنے استاذ کے تئیں بے مثال اطاعت شعاری و وفاداری ان کی زندگی کے نمایاں اوصاف تھے۔ اور ان کی قابل رشک زندگی ہمارے لیے مینارہ نور اور نئی نسل کے لیے سرمہ بصیرت کی حیثیت رکھتی ہے ؛ اسی لیے ہم نے مصمم عزم کیا کہ آپ کی روشن حیات و خدمات کو کتاب کے اوراق میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیا جائے ؛ تا کہ ہم اپنی زندگی کی مختلف راہوں میں اس نورانی مشعل سے روشنی اور رہنمائی حاصل کر سکیں اور ان کے نقش قدم پر چل کر کسی بھی درجہ میں ان کے جیسی با مقصد زندگی گزارنے کی کوشش کر سکیں؛ کیوں کہ عظیم انسانوں کے پر عظمت کا رنامے پڑھ کر فطری

طور پر دلوں میں ان جیسا بنے اور کچھ کر گزرنے کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ لہذا والد گرامی کی وفات کے بعد سے ہی ان کی سوانح حیات کی تالیف کا عمل شروع کر دیا گیا، لیکن یہ کام کم از کم مجھ جیسے بے مایہ کے لیے آسان نہیں تھا؛ کیوں کہ اس کتاب کو ایک سوانحی مرقعہ بنانے کے لیے ہم نے درج ذیل امور پر تفصیلی روشنی ڈالنے کی

اپنی سی کوشش کی ہے: ۱) وطنی اور خاندانی تفصیلات ، جہاں صاحب سوانح کی نشو و نما ہوئی اور جوان کی زندگی میں خشت اول کی حیثیت رکھتی ہیں۔

۲) تعلیم و تربیت کے لحاظ سے زندگی کے مختلف ادوار اور علمی مراکز ، جہاں

صاحب سوانح کی شخصیت سازی ہوئی۔

۳) اساتذہ اور ان کے احوال، جو صاحب سوانح کی شخصیت سازی میں معمار

کی حیثیت رکھتے ہیں۔

۴) مختلف علمی عملی اور دعوتی خدمات اور کارنامے، جن سے صاحب سوانح کی

گونا گوں صلاحیتوں کا ظہور ہوا۔

۵) تصنیفات و تالیفات کا تفصیلی تعارف، جو صاحب سوانح کی فنی مہارت کی

معاصرین اور ان کے تاثرات، جن میں سے ہر ایک اپنے مخصوص زاویہ نگاہ

سے صاحب سوانح کی زندگی کو دیکھتے ہیں۔

ے مشاہیر جن سے خصوصی تعلق رہا اور جنھوں نے صاحب سوانح کی خدمات کو

تحسین کی نگاہوں سے دیکھا۔

ظاہر ہے کہ ان تمام عناصر پر مواد حاصل کرنا اور انہیں مرتب کر کے کتابی شکل وصورت میں ڈھالنا محنت طلب ، دشوار گزار ، صبر آزما اور نازک کام ہے، جو ایک دو دن میں پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا ، بلکہ میرے لیے یہ تنکا تنکا جمع کر کے آشیانہ بنانے جیسا عمل تھا؛ چناں چہ والد صاحب کے کتب خانہ کے پورے ذخیرہ کو کھنگالنا، متعلقہ چیزوں کو جمع کرنا ، ڈائریوں ، کاغذات، مسودات اور خطوط کے مطالعہ اور انتخاب میں دماغ سوزی سے کام لینا، والد صاحب کے ہم عصر اصحاب علم و قلم ، خاندان کے بزرگوں اور کتاب میں ذکر کردہ شخصیات کے احوال زندگی کے لیے ان کے وارثین اور دیگر علماء سے بار بار رابطہ کرنا اور تاریخی مواد کے لیے متعلقہ کتابوں کی حصول یابی کے لیے دوڑ دھوپ کرنا وغیر غیرہ، یہ تمام ایسے مراحل ہیں، جن میں بڑے صبر، ہمت اور پیہم طلب و جستجو کی ضرورت تھی ، صرف اور صرف اللہ تبارک و تعالی کی توفیق سے ان مراحل کو طے کرنے کی قوت اور سعادت حاصل ہوئی۔

پہلے ارادہ تھا کہ والد صاحب کے مقالات و مضامین کو بھی اسی کتاب میں شامل کیا جائے ، پھر طوالت کے پیش نظر اسے موقوف کرنا پڑا؟ تاہم اس کتاب میں جتنی شخصیات کے تذکرے اور سوانحی خاکے ہیں، بجز چند کے سب کے سب والد صاحب کے تحریر کردہ ہیں، انہیں من وعن شامل کتاب کیا گیا ہے؛ تاکہ ان کے ذریعہ صاحب سوانح کا اسلوب تحریر اور ذوق تحقیق قارئین کے سامنے آسکے۔

بہر حال اللہ تعالی کی مشیت اور اس کی توفیق سے یہ سوانح ترتیب و تالیف کے قالب میں ڈھل چکی ہے؛ لہذا تعریف کے جملہ کلمات اور شکر کی تمام ادا ئیں اس باری عز اسمہ کی خدمت اقدس میں پیش ہیں، جس نے اس ذرہ بے مقدار کو ہمت، قوت اور توفیق عطا فرمائی اور اس گراں قدر سوانح کی تالیف کے دیرینہ خواب کو شرمندہ تعبیر کیا۔

فَلِلَّهِ الْحَمْدُ رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَرَبِّ الْأَرْضِ رَبِّ الْعَالَمِينَ . وَلَهُ

الْكِبْرِيَاء فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ . (سورة

الجاثية: ٣٧،٣٦)

اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ اقدس میں عاجزانہ دعا ہے کہ اس ادنی کاوش اور حقیر کوشش کو شرف قبولیت سے نوازے، قارئین کو اس سے دینی نفع پہنچائے ، ہمارے والدین، جملہ عزیز واقارب اور مجھ سیاہ کار کے لیے اسے ذخیر ہ آخرت بنائے۔

رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ. (سورة البقرة: ۱۲۷)

اس موقع پر استاذ گرامی قدر نمونہ سلف حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان منصور پوریؒ، حضرت مولانا برہان الدین سنبھلی، حضرت مولانا سید محمد سلمان منصور پوری، حضرت مولانا نورالحسن راشد کاندھلوی، ان کے خادم خاص مولانا ارشد قاسمی کاندھلوی، حضرت مولانا سالم جامعی ، مولانا ضیاء الحق خیر آبادی، جناب تکلیف الرحمن سنبھلی ، ڈاکٹر مصباح احمد صدیقی امروہی ، ڈاکٹر جنید اکرم فاروقی امروہی ، مفتی ریاست علی رام پوری، مفتی امانت علی قاسمی، مفتی نوشاد نوری، مولانا غفران اللہ مفتی جو ہر علی قاسمی، مولانا اسد پر وہی اور دیگر صاحبان علم و قلم کا احقر دل کی گہرائیوں سے ممنون و مشکور ہے، ان حضرات نے بے پناہ مصروفیات کے باوجود احقر کی درخواست پر اپنی گراں قدر تحریروں سے نوازا۔ فجزاهم

الله خير ما يجزى عباده الصالحين من الكرماء والنبلاء.

Maulana Mohib ul Haq Nuqoosh wa Tasurat

By Mufti Imdad ul Haq Bakhtiyar

 

Read Online

MAULANA_MOHIB_UL_HAQ_NUQOOSH_TASURAAT مولانا محب الحق نقوش و تاثرات

Download (4MB)

Link 1      Link 2